سعودی خارجہ پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ
ڈاکٹر صالح بن محمد الخثلان ۔ الشرق الاوسط
(پروفیسر سیاسی علوم کنگ سعود یونیورسٹی )
سعودی عرب پر نظررکھنے والے یہ بات نوٹ کررہے ہیںکہ سرکاری اداروں کی تنظیم نو سے متعلق اہم سیاسی فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہونگے۔ سعودی قیادت نے وژن 2030کے تحت نئی تقرریاں کی ہیں او رسعودی وژن کے اہداف کی تکمیل کی کوشش کی جارہی ہے۔
شاہی فرامین سے یہ بات بھی ظاہر ہورہی ہے کہ سعودی قیادت اپنے اطراف ہونے والی تبدیلیو ں کی ہمرکابی کی خواہش مند ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم العساف کی بحیثیت وزیر خارجہ تقرری اور عادل الجبیر کی وزیر مملکت برائے امور خارجہ تقرری اور سعودی کابینہ کاانہیں رکن بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں فیصلے اندرون اور بیرون ملک لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنے ہیں۔ مملکت سے دلچسپی رکھنے والے جاننا چاہتے ہیں کہ العساف کووزیر خاررجہ بنانے اور عادل الجبیر کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ مقرر کرنے کے ا سباب و محرکات کیا ہیں؟
یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ کا منصب نیا نہیں۔ یہ چھٹے عشرے کے اختتام سے چلا آرہا ہے۔ نئی بات یہ ہے کہ شاہی فرمان کے تحت اس منصب کو سعودی کابینہ سے مربوط کردیا گیا۔ اب وزیر مملکت برائے امور خارجہ کابینہ کا ممبر بھی ہوگا۔ ماضی میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ کا دائرہ دفتر خارجہ کے ایوانوں تک محدود ہوتا تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ عادل الجبیر سے وزارت خارجہ میں کسی نئے اہم کردار کی توقع کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزارت خارجہ کی تنظیم نو ضروری ہوگئی تھی تاکہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی ہمرکابی کی جاسکے۔سعودی عرب اپنے دیگر سرکاری اداروں کو بھی جدید خطوط پر استوار کررہا ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی تبدیلی کا ماسٹر پلان تیار کیا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی حالات میں تیزی اور رنگا رنگی نے عادل الجبیر کو ان پر توجہ نہیں دینے دی۔ ابراہیم العساف کی موجودگی سے سعودی دفتر خارجہ کے ماسٹر پلان کو روبعمل لانے میں مدد ملے گی۔ العساف کو سرکاری اداروں میں کام کا طویل تجربہ ہے۔ العساف سیاسی اور سفارتی امور بھی دیکھیں گے۔ خاررجہ امور سے وزیر خارجہ کی دلچسپی نہ لینا ممکن ہی نہیں۔
وزارت خارجہ مملکت کی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے تمام سرکاری اداروں سے جڑی ہوئی ہے۔ مختلف ممالک کے ساتھ سیاسی تعلقات ہوں یا علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں کے دائرے میں کثیر جہتی تعلقات ہوںیا سفارتی مشنوں کا معاملہ ہو ،ان سب کا تعلق وزارت خارجہ سے ہے۔ ابراہیم العساف خارجی امور کا بڑا حصہ دیکھیں گے جبکہ عادل الجبیر دفتر خارجہ کے منتخب مسائل کے انچارج ہونگے۔
وزیر خارجہ عساف اپنے طویل تجربے اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر اپنی متحرک شخصیت خصوصاً امریکہ کیساتھ تعلقات اور میڈیاسے مضبوط رشتے کی بدولت سعودی عرب کے سفارتی عمل کو کامیابی کی نئی جہتوں سے متعارف کرائیں گے۔دونوں وزیر سعودی وژن 2030کی ترجیحات، انکے حصول میں وزارت خارجہ کے کردار اور خطے میں امن و استحکام کی بازیابی پر توجہ مرکوز کریں گے۔ علاوہ ازیں مملکت کے اسٹراٹیجک تعلقات کو برقرار رکھنے ، تیل منڈی میں مملکت کے مقام و رتبے کے تحفظ، اسلامی دنیا میں مملکت کے کردار کو موثر بنانے ، انسانی حقوق کے چیلنجوں سے نمٹنے کے اہم کام بھی سرانجام دینگے۔یہ سارے معاملات ایسے ہیں جو سرگرم کارروائی کے طلب گار ہیں۔ انہیں ٹھنڈے انداز میں نہیں لیا جاسکتا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ مجلس شوریٰ نے 2برس قبل وزارت خارجہ سے کہا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی کا نیا ڈھانچہ تیار کرے،سعودی خارجہ پالیسی کی دستاویز ترتیب دے،ممالک اور مسائل کے حوالے سے اپنی ترجیحات مقرر کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭