اندر سے کھوکھلا مسلم جہاں
ڈاکٹر جاسر الحربش ۔ الجزیرہ
بات بڑی عجیب ہے لیکن حیرت انگیز نہیں۔اسلامی دنیا غربت ، پسماندگی، غیر منظم کثیر آبادی اور ناخواندگی جیسی آفات کا مجموعہ بنی ہوئی ہے۔ایک ملک دوسرے ملک ، ایک طاقت دوسری طاقت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ انڈونیشیا سے لیکر بحر الکاہل اور بحر اٹلانٹک پر واقع افریقہ کے شمال مغرب بعید تک مسلم دنیا پھیلی ہوئی ہے۔
میرے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عیسائی دنیا یا ہندو ، بودھ مت دنیا یا یہودی گروپ کے طرز پر کوئی اسلامی دنیا بھی نقشے پر موجود ہے؟ جی ہاں اسلامی دنیا ایک مذہبی، جغرافیائی زمینی حقیقت کے طور پر نقشے پر موجود ہے لیکن اس میں کتنا دم ہے اور یہ کتنی اہم ہے۔ جغرافیائی رقبے اور کثیر آبادی کے مالک اس زبردست وجود کی قدرو قیمت کیا ہے۔ مسلمان دنیا کی 20فیصد آبادی ہیں۔ علم، سائنس ، طاقت ، حقوق ، صنعت اور روشن مستقبل کے حوالے سے یہ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہوئی ہے۔ دیگر مذاہب اور دیگرتمدنوں کے علمبردار ممالک کے سامنے انکی کیا حیثیت ہے؟اسلامی دنیا دیوہیکل ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن طاقت اور تدبیر کے حوالے سے اسکی حیثیت پستہ قد وجود سے زیادہ کچھ نہیں۔ ثبوت اسکا یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود تمام طاقتیں اسلامی دنیا کے مفادا ت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ عرب ہوں ، افغانستان ہو یا پاکستان ہو ہر ایک اس وقت گرداب میں ہے۔
اسلامی دنیا اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی دنیاﺅں کے درمیان تقابلی مطالعہ مسلم دنیا پر رحم کھانے پر اکساتا ہے۔ بسا اوقات تقابلی مطالعہ مسلم دنیا پر گریہ کا باعث بنتا ہے اور یہ گریہ رفتہ رفتہ ہنسی اور ہسٹریائی کیفیت تک لیجاتا ہے۔ دیکھئے یہودی مت کے پیرو کاروں کی تعداد 25ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ پوری دنیا میں انکا مالیاتی، سائنسی اور تخلیقی اثر و نفوذ مسلم ہے۔ اس سے کہیں زیادہ شرمناک سچ یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مقابلے میں یہودیوںکے عسکری غلبے اور جبر کا معترف پورا جہاں ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان اپنے علاقوں، قدرتی وسائل اور اپنی جان کا دفاع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے جبکہ 25ملین یہودی اس قدر طاقتور ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں اف تک کہنے کی جسارت نہیں کرپاتی۔ اتنا ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ ان سے دوستی اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ عالم اسلامی آبادی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے عظیم تر ہونے کے باوجود ڈھیلے ڈھالے وجود کا نشان بنا ہوا ہے؟کیا اس کاسبب تمدنی ورثے پر زنگ چڑھ جانا ہے؟ کیا اس کا باعث قبائلی و طبقاتی عادات و روایات کے خول میں بند ہوجانا ہے؟یا اس کی وجہ مذہبی رہنماﺅں کی استحصال پسندی ہے۔ کیا اقوام و ممالک کے مقابلے میں مادی و معنوی بے نیازی اس کا سبب ہے؟ کیا تجدید کی مزاحمت اسکی ذمہ دار ہے یا اقتدار اور انتظامیہ کے طور طریقوں کو سمجھنے میں کوئی بنیادی خرابی اسکی ذمہ دار ہے۔ کیا مذہبی پیشواﺅں کا ہر قیمت پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا جذبہ اسکا باعث ہے۔ یا مذکورہ تمام امور کا کوئی جاہلانہ مرکب اسکا ذمہ دار ہے؟
غرقاب ہونے یا ترکیبی عناصر کے ہوا میں گم ہونے سے قبل اچھی بات یہ ہوگی کہ حقیقت تسلیم کرلی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم 5صدیوں سے اسلامی دنیا کرہ ارض پر موجود دیگر تمام دنیاﺅں کے مقابلے میں سب سے زیادہ غریب ، سب سے زیادہ ناخواندہ اور سب سے زیادہ عدل سے عاری اور سب سے زیادہ بدامنی میں مبتلا ہے۔ یہ دیگر تمام تمدنوں کے مقابلے میں سب سے بودی دیوار ہے۔ اسے قائدانہ تجدیدی نشاط نو کی اشد ضرورت ہے۔
میری آخری گزارش یہ ہے کہ قارئین سی این این میں سابق تجزیہ نگار مارک لومنٹ ہل کی وہ تقریر ضرور پڑھیں اور سنیں جو انہوں نے دورہ فلسطین کے بعد اقوام متحدہ میں کی تھی۔ سی این این نے اسی تقریر پر انہیں ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ سامی دشمن ہوگئے ہیں۔ مارک لومنٹ ہل امریکی شہری ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭