سعودی عرب میں کیا بدل گیا؟
سلمان الدوسری ۔ الشرق الاوسط
شاہی فرامین کے بل پر ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کا کارواں رواں دواں ہے۔ سعودی کارواں نے اقتصادی و سماجی اصلاحات کی طویل شاہراہ پر سفر کا ایک برس مکمل کرلیا۔شاہی فرامین کا اجرا بہت سارے چیلنجوں پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش ہے۔ سعودی شہری اپنے وطن سے مزید کچھ کے منتظر ہیں۔ یہ انکا حق ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سعودی عرب مزید بہتری کی طرف رواں دواں ہے۔ سعودی عوام کو یقین ہے کہ ”احسن “ کا ہدف ابھی تک پورا نہیں ہوا۔
خواتین نے مملکت میں ڈرائیونگ ایسے عالم میں شروع کی جبکہ بہت سارے لوگ اسے ناممکن گردان رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خواتین ریاض، جدہ، الخبر، جازان اور سعودی عرب کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر مردوں کے شانہ بشانہ گاڑیاں چلانے لگیں۔ کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جس کا خدشہ بہت زیادہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ کسی ایک خاتون کے ساتھ بھی ڈرائیونگ کی بنیاد پر چھیڑ خانی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ معاشرہ جو اپنے اصولوں اور ماضی کے اپنے کارناموں سے منحرف نہیں ہوا۔ ایسے عالم میں یہ معاشرہ مثبت انداز میں کیونکر تبدیل ہورہا ہے۔خواتین کی ڈرائیونگ اس کی واحد مثال نہیں۔ اسی ایک ماہ کے دوران الدرعیہ نے فارمولا ای ریس کی میزبانی کی۔ اسے دنیا بھر میں 80ملین افراد نے دیکھا۔ ابھی یہ بین الاقوامی ریس ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ العلاءمیں” شتاءطنطورة“ کا جشن پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے آگیا۔ پوری دنیا دم بخود ہے کہ آخر سعودی عرب جیسا روایتی ملک ریکارڈ تیزی سے جدید سے جدید تر کیونکرہوتا چلا جارہا ہے اور مستقبل کی جہت میں برق رفتاری سے گامزن ہے جبکہ اپنی روایت پسندی سے بھی منحرف نہیں ۔
یہ درست ہے کہ خود سعودی معاشرے کے ایوانوں میں کئی سماجی اصلاحات پر چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی بحثیں صحت مند ہیں۔ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے دے اور اپنے نقطہ نظر کا برملا اظہار کرے۔ جو چاہے تبدیلی کو پسند کرے اور جو چاہے تبدیلی کا حصہ نہ بنے۔ یہ ہر ایک انسان کا فطری حق ہے۔ اس سے اختلاف ممکن نہیں۔ فطری امر ہے کہ معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کا سب احاطہ نہ کرپائیں۔ بعض لوگوں کو آنے والی تبدیلیاں سمجھنے اور انہیں ہضم کرنے میں زیاد وقت لگتا ہے۔ یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسکا ذہن جو کچھ مانے ہوئے ہے اسے وہ دوسروں پر مسلط کرے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ نئے سعودی عرب کے حوالے سے عوامی ردعمل کا حجم بڑا مثبت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر سعودی تبدیلی کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ طویل عرصے سے وہ ا س کے منتظر تھے۔ دسیوں ہزار افراد نے فارمولا ای دیکھا اور اب وہ شتاءطنطورة کے نظاروں سے لطف لے رہے ہیں۔ شتاءطنطورة میں سعودی عوام کی شرکت ظاہر کررہی ہے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھنے کے مشتاق تھے اور عرصے سے اسکے منتظر بھی۔
اقتصادی و سماجی اصلاحات سے بعض لوگ سیاسی اصلاحات کو مربوط کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترجیحات کا تعین ہر معاشرے کا اپنا حق ہے کہ ایک خاص قسم کا نظام جو فرانس کے لئے قابل قبول ہو۔ ضروری نہیں کہ وہ امریکہ کیلئے بھی قابل قبول ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭