Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025

حکومتی ترجیحات اور عمل میں تضاد

کراچی (صلاح الدین حیدر) اعتراف تو کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم نے حکومت کو فعال بنانے کے عمل میں تیزی دکھانا شروع کردی ہے۔ بیرونی ممالک میں مقیم سفیروں کی کانفرنس میں جس سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر اور خود وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئی بنیادوں پر تشکیل دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا کہ خارجہ پالیسی معیشت کو نظر انداز کر کے نہیں چل سکتی اپنی جگہ درست لیکن پوری حکومت اس بات سے غافل نظر آتی ہے کہ اس وقت ملکی حالات دگرگوں ہیں۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ گیس کی کمیابی سے کارخانے بند ہونا شروع ہوگئے ، صنعتی پیداوار پر اثر پڑنے برآمدات مزید گر گئیں ۔ملک کے اندر بھی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوگا جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنے گا۔
عمران نے جہاں خود 4 مالک کا دورہ کر کے مغربی ممالک کے پریشر کو کم کیا ہے۔ وہیں شاہ محمود قریشی نے بھی افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے مگر یہ سب کرنے کے بعد بھی عمران کو عوام الناس کی بھلائی کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی سیاستدان جب تک قومی سطح پر مقبول نہیں ہوتا۔ اس کی ساری کوششیں اور کاوشیں اگر بیکار نہیں تو منافی ضرور ثابت ہوتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بھٹو بہت مقبول لیڈر تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آزادی صحافت کا گلا گھو نٹ دیا۔ عوام میں بے چینی بڑھی اور ایک تاریخی احتحاج کے نتیجہ میں ان کی نہ صرف حکومت گئی بلکہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ عمران ایماندار اور نیک نیت ضرور ہیں ۔ اب اگر وہ پٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں تو گھریلو استعمال کی اشیاءکی قیمتوں کو گرفت میں کرنے پر بھی زور دینا چاہیے۔ ان کا نیا منصوبہ جس کا آغاز لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں طمطراق سے ہوا یعنی بے گھر لوگوں کیلئے شیلٹر ہومز بنانا یقینا اس نے دل موہ لئے۔
سب باتیں اپنی جگہ صحیح لیکن وزیراعظم کے ساتھیوں، خاص طور پر پی ٹی آئی کے ایم پی اے خرم شیر زمان اور حلیم عادل شیخ نے ایک نعرہ لگا کر کہ سندھ میں حکومت گرا کر چھوڑیں گے۔ اپنی ہی حکومت کے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے۔ پہلے ہی 172 افراد کی لسٹ جس میں آصف زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو، سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ اور کئی دوسرے پیپلز پارٹی کے اہم رہنما، ساتھ میں انور مجید، عبدالغنی اور ملک ریاض کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر حکومت نے بحرانی کیفیت پیدا کردی۔ اب سندھ حکومت کے خلاف باتیں ہو سکتا ہے۔ کسی حکمت عملی کا ذریعہ ہو مگر دوران خانہ تو ہلچل مچ گئی نا گھبرانے کی بات نہیں۔زرداری کا جواب فورا ہی آیا کہ ڈریں گے نہ جھکیں گے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زرداری نے 11 سال جیل کاٹی لیکن ایک پیسے کا بھی حساب نہیں دیا۔ آج بھی انہیں جیل جانے سے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ، خورشید شاہ نے جواب الجواب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مراد علی شاہ کے چہرے سے گھبراہٹ تو عیاں ہیں لیکن بلاول چٹان کی طرح کھڑا ہے۔ تحریک گرفتاری پر نہیں نظریئے پر چلتی ہیں۔ احتساب میں کوئی مقدس گائے نہیں۔ لفظوں کی گولہ باری جاری ہے۔ شکر ہے کہ عمران نے اس موضوع پر لب کشائی نہیں کی مگر وہ اس بات پر تو مصر ہے کہ اپوزیشن کی ہر بات قبول، مگر کرپشن اور منی لانڈرنگ منظور نہیں، اس کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے۔ ظاہر ہے فضاءمیں کشیدگی بڑھ گئی ہے لیکن عوام خوش ہیں۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ ملک میں انصاف ہو، چوروں اور ڈاکوﺅں کو سزا ملنی چاہئیے۔ ناجائز طور پر کمائی گئی دولت کو قومی خزانے میں جمع کرنا ہی پڑے گی، عمران بھی جانتے ہیں کہ قوم اگر ایک طرف قیمتیں بڑھنے کا شکوہ کرتی ہے تو دوسری طرف زرداری، نواز شریف اور فریالتالپور سے جان بھی چھڑانا چاہتی ہے۔ اب یہ عمران پر ہی کہ کس معاملے کو کس ترجیح پر رکھتے ہیں۔
جن172 لوگوں کے نام ای سی ایل پر ڈالے گئے ، ان میں 9 سیاستدان، 16 فسران اور 50 سے زیادہ کاروباری شخصیتیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ خاصے جذباتی نظر آتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ان کی جان نہیں چھوٹنے والی۔ سندھ حکومت تو شاید نہ گرائی جائے، نہ ہی گورنر رول لگے گا۔ یہ سب کچھ فی الحال ذہن میں ہے لیکن منی لانڈرنگ کھل کر ہوئی تو حساب تو دینا ہی پڑے گا۔ وزیر اعلی کے استعفی کا بھی مطالبہ کیا جانے لگا ہے ۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی طرف سے نہیں، یہ صرف صوبائی سطح پر شور وغوغا ہے۔
ن لیگ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ن لیگ نے خیر احتجاج ترک ہی کردیا۔ افواہیں بھی گردش میں ہے کہ نواز 2 بلین ڈالر دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ کیا عمران نے 5 ارب ڈالر کی امید رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب افواہیں ہی ہیں۔ مریم کی خاموشی البتہ کچھ نشاندہی کرتی ہے ۔جب تک بات سرکاری طور پر نہیں کہی جائے یقین کرنا بھی بے سود اور نقصان دہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی ضرور تحریک کی باتیں کررہی ہے لیکن یہ بات تو زبان زد عام ہے کہ پارٹی تحریک چلانے کی حیثیت میں ہی نہیں ۔ عوامی حمایت کھو چکی ہے، پھر بھی اسے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔فضول میں امن و امان کی فضا خراب کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔اپنی ترجیحات اور عمل میں تضاد دور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 

شیئر: