Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025

نواز اور زرداری کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا ؟

***صلاح الدین حیدر***
عنوان پر سوالیہ نشان اس لئے لگایا گیا ہے کہ ابھی صورت حال کافی حد تک واضح نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ احتساب عدالت نے انہیں غیر معمولی جائیداد اور دولت کے انبار لگانے پر 7 سال کی سزا سنائی لیکن چند ایک روز میں بلکہ اگلے ہفتے شروع ہوتے ہی قانونی جنگ چھیڑ دی جائے گی۔ نواز شریف کے وکلاء عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایک اعلی سطح کے اجلاس کے بعد افسران کو حکم دے چکے کہ فلیگ شپ میں بریت کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں۔ دوسری طرف خبریں مسلسل گردش کررہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف جے آئی ٹی نے الزامات کی طویل فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے اب یہ کیس چیف جسٹس کے سامنے لگا ہے۔ خود بلاول بھی شکنجے سے باہر نظر نہیں آتے۔ اب دیکھیں عدالت عظمیٰ کیا فیصلہ کرتی ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ زرداری اور فریال تالپور کے خلاف کافی مواد ہونے کی وجہ سے بچنا شاید مشکل ہی ہو۔ بلاول کے بارے میں فی الحال کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اس نے خود سے کوئی جرم نہیں کیا لیکن باپ کی طرف سے پیسہ اور جائیداد وصول کرنے کے بعد سوال جواب تو ہوسکتا ہے۔
کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے شواہد کا باریک بینی اور بلا تعصب جائزہ لینا ضروری ہے۔ جے آئی ٹی کی جو سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں تو بہت سارے الزامات ہیں جو کہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے تحقیقات کے بعد حاصل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک تو یہاں پیش خدمت ہیں۔ زرداری اور ان کے پارٹنر اومنی گروپ اور اس کے مالک انور مجید، صاحبزادے سمیت حراست میں ہیں۔ کئی ایک پیشیاں بھی بھگتا چکے ہیں۔ ضمانت کی درخواستیں خارج ہوچکی ہیں۔ دوسرے پارٹنر ملک کے سب سے بلڈر ریاض ملک جن کے خلاف شکایتوں کے انبار ہے کہ انہوں نے بیوائوں اور غریب غرباء کی زمینوں پر قبضے کر کے بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کیں، نیوی یا بحریہ کے نام استعمال کیا، ان سے معاہدہ ختم ہونے کے بعد بھی استعمال کر کے کلفٹن میں ایک بہترین فلائی اوور تو بنادیا لیکن ساتھ ہی ایک بزرگ کا مزار کے احاطے کی زمین پر قبضہ کیا۔ سندھ میں جہاں زرداری کی پیپلز پارٹی پچھلے 10 برسوں سے برسراقتدار ہے، کوڑیوں کے دام زمین ہتھیائی اور اس طرح 62 منزلہ ٹاور میں فلیٹس اور آفس کی جگہ کے لئے اربوں روپے جمع کر کے بے پناہ دولت کمائی۔ اب یہ کیس سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ پہلے بھی سندھ ہائی کورٹ اس پر کیس چلا چکی تھیں لیکن بعد میں اسے ختم کردیا گیا لیکن سپریم کورٹ میں  جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ اور دوسرے معمولی ججز نہیں ہیں۔ وہ بال کی کھال نکالنے میں مشہور ہیں۔ ریاض ملک کا کہنا تو یہی ہے کہ انہیں سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع ہے لیکن سرمایہ کاری جائز طریقے سے کی گئی ہو تو پھر تو کسی خوف یا ڈر کی بات نہیں لیکن جج صاحبان کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کا لوگوں کو بے چینی سے انتظار ہے۔
اومنی گروپ پر 35 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ عدالت میں الزام لگ چکا ہے کہ ٹھیلے والوں، چھولے بیچنے والوں اور اسی طرح کے غریب اور چند پیسے کمانے والوں کے اکائونٹس سے کروڑوں بلکہ اربوں روپے نکلے۔ سب کے سب بے نامی تھے۔ الزام آصف زرداری پر لگا، کمال کی بات تو یہ ہے زرداری نے تردید کے بجائے ایک طرح کی حامی بھری کہ میرا پیسہ ہے، میں جہاں بھی لگائوں کسی کو کیا تکلیف ہے۔ ہاں جن کے اکائونٹس سے پیسہ نکلا ان سے پوچھ گچھ کی جائے۔ اب اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں سے کاغذات مانگ لیے ہیں جن کی برانچوں سے بے نامی دولت نکالنے کی خبریں ملی تھیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق زرداری اور ان کے حامیوں کے لیے کام کرنے والوں کے نام شامل ہیں، ٹھٹھہ سیمنٹ، نوڈیرو شوگر ملز اور دادو شوگر ملز اونے پونے داموں خریدی گئیں۔ وزیراعظم کے احتساب کے مشیر شہزاد اکبر کے مطابق سندھ حکومت نے پہلے ان ملوں کو نقصان میں دکھایا، پھر انہیں بند کر کے اومنی گروپ یا زرداری کو بیچ دیا۔ ٹھٹھہ شوگر مل 13.5 کروڑ میں جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے خریدا گیا۔ نوڈیرو شوگر مل 2001ء میں صرف 6 کروڑ 80 لاکھ میں ہتھیالیا گیا جبکہ اس کی اصل قیمت 71 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی۔ دادو شوگر ملز کو جو سندھ حکومت کی ملکیت تھی اسے 2008ء میں صرف 9 کروڑ میں فروخت کیا گیا جبکہ اس کی مارکیٹ میں قیمت 62 کروڑ سے بھی زیادہ تھی۔ یہاں تک ہوا کہ ان تمام صنعتی اداروں کو حکومت کی طرف سے سبسڈی یا زرتلافی دی گئی جس کا کوئی حساب نہیں۔
 ایسی تمام باتوں کی وجہ سے سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ پر بھی الزام آیا اور ان کے خلاف بھی تفتیش شروع ہوگئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے تمام الزامات جھٹک دیئے اور کہا کہ ان میں کوئی ایسا نہیں جس کا دفاع نہ کیا جاسکے۔ اومنی گروپ نے چونکہ سودے کیے تھے اس کو 20 ارب روپے کی سبسڈی یا زر تلافی سے بے پناہ فائدہ ہوا۔ گروپ نے ایک اکائونٹنٹ کے ذریعے سارے حساب کتاب کو اپنے حق میں کرالیا اور اس طرح بے شمار دولت کمائی گئی۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں جہاں کی زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں زرداری نے ایک فلیٹ 5 لاکھ 30 ہزار ڈالر میں خریدا تھا۔ گو کہ وہ اس سے انکاری ہیں لیکن نیویارک کا سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ اب تک زرداری صاحب فلیٹ کا کرایہ اور ٹیکس دے رہے ہیں۔ 
ملک ریاض کے خلاف ایک الزام یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ ہائوس سے 6 انچ قطر کی پائپ لائن کے ذریعے واٹر بورڈ کا وہ پانی جو وزیر اعلیٰ ہائوس کے لئے مختص تھا اسے کلفٹن کی آئی کون بلڈنگ میں بھیجا گیا۔ K-4 منصوبہ باوجود اس کے کراچی میں پانی کی سخت قلت تھی اور یہ منصوبہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی سپلائی کرنے کے لئے بنایا گیا تھا پچھلے 10 برس سے سے غیر فعال رہا اور اس کا پانی ناجائز طریقوں سے بحریہ ٹائون کو سپلائی کیا جارہا ہے جو کہ شہریوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ذاتی مفادات پر ضائع کیے جاتے ہیں۔ کوئی ہے سننے والا؟
پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے 26 جنوری کو نوڈیرو میں زرداری کی گرفتاری پر تشویش کا ظہارکرتے ہوئے مہم چلانے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کوئی احتجاج یا عوام کو سڑکوں پر لانے کی پوزیشن میں ہے بھی کہ نہیں۔ پنجاب میں تو تقریباً ختم ہوچکی ہے اور سندھ میں بھی اگر اس کے خلاف حکومت نے سخت اقدامات کیے تو کیا وہ اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔ نواز شریف اس معاملے میں عقلمند ثابت ہوئے۔ انہوں نے احتجاج کے بجائے قانونی جنگ کو فوقیت دی جو کہ ان کا حق ہے۔ لیکن سوال سب سے اہم ہے کہ کیا نواز یا زرداری اب حکومت کے خلاف صف آراء ہو بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ جواب وقت ہی دے سکے گا۔ 
 

شیئر: