Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 16 جون ، 2025 | Monday , June   16, 2025
پیر ، 16 جون ، 2025 | Monday , June   16, 2025

8سالہ بچی .... 12گھنٹے ڈیوٹی

ڈاکٹر جاسر الحربش ۔ الجزیرہ
میں نے کسی سیٹلائٹ چینل میں شامی بچی کی کہانی دیکھی تھی۔ میں اسکا نام بھول گیا۔ یہ بچی جان بچانے کیلئے اپنے وطن سے فرار ہونے پر مجبور ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ اسکا نام ”ھبہ“ تھا۔ یہ اپنی ماں اور بھائیوں کے ہمراہ شام سے پڑوسی عرب ملک پہنچی۔ وہاں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر قائم کیمپ میں پناہ گزینوں کے ساتھ رہنے لگی۔ باپ شام کی جنگ میں مارا گیا۔ ماں جسمانی معذوری کے باعث کام سے لاچار ہوگئی۔ بچوں کو اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کرنا پڑ گیا۔ 8سالہ بچی ھبہ نے جو اپنے سب بھائیوں میں چھوٹی ہے،خود پر بھاری ذمہ داری لے لی۔ یہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں موجود بڑے لوگوں کی طرح ملازمہ میں تبدیل ہوگئی۔ صبح سویرے اٹھتی، اپنے ننھے منے ہاتھوں سے منہ دھوتی۔ کیمپ کے ٹھنڈے پانی سے منہ پر چھپاکے مارتی ۔ روٹی کا ایک ٹکڑا اور کبھی کبھار گرم دودھ کا کپ پیتی اور اپنی ماں کو کھلا پلاکر اس کی پیشانی پر پیار کرکے کیمپ سے نکل جاتی۔ کیمپ کے مزدوروں کے ساتھ ایک ٹرک پر سوار ہوتی۔ یہ ٹرک انہیں قریب میں واقع مارکیٹ لے جاتا۔ وہاں یہ لوگ کسی ورکشاپ ، کسی گھر یا زرعی فارم میں محنت مزدوری کےلئے اپنی خدمات پیش کرتے۔ انہیں معمولی سا محنتانہ دیا جاتا۔ سورج غروب ہونے تک یہ سب لوگ وہاں کام کرتے اور پھر کیمپ واپس آجاتے۔ اس دوران ھبہ جھاڑو پونچھا کرتی ۔ اپنے کمزور بازوﺅں پر سامان رکھ کر ادھر سے ادھر منتقل کرتی۔ کبھی کبھار تو بغیر کھائے پورا دن گزر جاتا۔ اگر محنت مزدوری کرانے والا کچھ عطا کردیتا تو اس پر انکا گزر بسر ہوجاتا۔ یہ 8سالہ بچی اپنے چہرے سے اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑی نظر آتی تھی۔ اسکی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ چکے تھے۔ آنکھیں سرخ رہنے لگیں اور اسکی ناک بہتی مگر اسکے پاس نہ رومال ہوتا اور نہ ہی ٹشو پیپر کہ جس سے وہ اپنی ناک صاف کرتی۔ کہہ سکتے ہیں کہ 8سالہ ھبہ روزانہ سورج غروب ہونے تک ایک بوڑھی خاتون میں تبدیل ہوجاتی۔
سورج غروب ہونے پر ھبہ ٹرک پر بیٹھ کر دیگر مزدوروں کے ہمراہ کیمپ آتی ۔ اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کو گلے لگاتی۔ ایک بار پھر کیمپ کے ٹھنڈے پانی سے اپنا منہ دھوتی۔ ماں دن بھر میں کچھ کھانا پینا تار کرلیتی تو بہن بھائی آپس میں مل جل کر وہ کھانا کھا لیتے۔ ھبہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ آرام کیلئے زمین پر لیٹ جاتی۔ اگلے روز صبح سویرے تک آرام کرتی اور پھر تباہی و برباد ی کے خطرات سے جان بچا کر بھاگنے والے بچوں کی بے یارو مدد گار زندگی گزارنے لگتی۔ میں آپ سے درست کہنا چاہوں گا کہ جب بھی مجھے 8سالہ ھبہ کا قصہ یاد آتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کبھا کبھار تو آنسو بھی ساتھ نہیں دیتے۔ سینے اور گلے میں گھٹن محسوس کرتا ہوں۔ افسوس کرتا ہوں کہ ہم لوگ کس قدر خود غرض ہوگئے ہیں کہ اپنوں کے دکھ درد کے احساس تک سے عاری ہوچکے ہیں۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ یہ سب سوچ کر زبان پر بس یہی ایک جملہ آتا ہے :حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اے اللہ! ھبہ اور اسکے اعزہ کوانکے وطن باعزت واپس کردے۔ اے اللہ! ہمارے بچوںکو ھبہ جیسے اندوہناک انجام سے اپنی حفاظت میں رکھنا۔ ھبہ کیلئے اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اسے اسم بامسمی بنادے۔ اللہ تعالیٰ اسے اسکی جدوجہد پر نواز دے۔ وہ اپنے وطن واپس ہو تعلیم حاصل کرے۔ یونیورسٹی سے فارغ ہو۔ کامیاب زندگی گزارے اور خاموش جدوجہد کی اس شاندار مثال کو حقیقی کامیابی کا تاج پہنا دے،آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: