پاکستان ہند سے دوستی کا خواہشمند
کراچی (صلاح الدین حیدر) پی ٹی آئی کی نئی حکومت نے جہاں کچھ غلطیاں کیں، وہیں اس نے خارجہ امور میں بہت عمدہ کاکردگی دکھائی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا سے ملک کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مخالفت برائے مخالفت تو ہمیشہ ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ آرمی چیف نے بھی ہند سے تعلقات میں نئی روش کا عندیہ دے دیا ہے۔ بحریہ اکیڈمی میں پاسنگ آﺅٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی پالیسیوں کی بھرپور حمایت کی جو کہ ملک اور خطے کے لئے خوش آئند بات ہے۔ آرمی کی سوچ میں اسی مثبت تبدیلی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایوب خان نے ایک ملٹری ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود پاکستان ہندوستان کی فوجوں میں کمی کرنے کی بات کی تھی۔ جنرل ضیاءالحق نے بھی بن بلائے ہند کے شہر جالندھر کا دورہ کیا جسے آج تک کرکٹ ڈپلومیسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پاک ہند کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے گئے تھے لیکن اسی سے پڑوسی ملک میں خاصی ہلچل مچی۔ اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم کو خود اپنے ہی ملک میں ہزیمت اور شرمندگی اٹھانا پڑی۔ ہندوستانی میڈیا نے ضیاءالحق کے دورے کو سراہا جو کہ راجیو گاندھی کے لئے سُبکی کا باعث تھا۔بےنظیر کے پہلے دور حکومت میں راجیو گاندھی نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں نے ایٹمی توانائی پر معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کئے جو کافی حد تک دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ نواز شریف نے ہند کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس کے نتیجے میں بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری وا جپئی بس کے ذریعے امرتسر سے لاہور آئے اور مینار پاکستان پر جو الفاظ پاک ہند تعلقات کے بارے میںکندہ کئے وہ آج بھی وہاں موجود ہیں۔
موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے نواز شریف سے روس کے شہر میں ملاقات کی پھر وہ سابقہ پاکستانی وزیراعظم کی نواسی کی شادی میں نجی دورے پرلاہور آئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی آگرہ میں وا جپئی سے امید افزاءمذاکرات کئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر پر فارمولا بھی طے پاگیا تھا لیکن بی جے پی کے سخت گیر رویہ رکھنے والے لال کشن اڈوانی اور سشما سوراج کی وجہ سے دستخط نہ ہوپائے۔ مشرف کو مایوسی ہوئی اور سربراہ ملاقات ایک دن پہلے ہی ختم کردی گئی۔
اس سے پاک ہند تعلقات کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔ طرہ اس پر یہ کہ نریندر مودی جو عمران خان سے بھی مل چکے تھے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل گئے جس سے خود ہند کو بہت نقصان پہنچا۔ جنرل قمر باجوہ نے ہندوستانی کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھو کو گلے لگا کر اور ان کی فرمائش پر کرتار پور سرحد کھول کر دنیا کو مثبت پیغام دیا کہ پاکستان پڑوسی ملک سے امن دوستی کا دل سے خواہشمند ہے۔ ہند میں مودی اور سدھو کے خلاف ضرورت سے زیادہ ہی شور و غل ہوا آرمی چیف کے حالیہ بیان نے کہ پاکستان ہند سے دوستی چاہتا ہے۔ پھر دنیا خاص طور پر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کو واشگاف الفاظ میں پیغام دے دیا کہ ہم آپسمیں بات چیت کے ذریعے مسائل جس میں کشمیر سرفہرست ہے کا مستقل حل چاہتے ہیں لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہماری خواہشات کے مثبت انداز میں جواب میں ہی برصغیر میں امن کی ضمانت ہے۔ دیکھیں ہند میں انتخابات میں پہلی مرتبہ 5 ریاستوں میں تو بی جے پی کو شکست ہوئی۔ پورے 34 ریاستوں میں نتائج آنے کے بعد دیکھنا ہوگا کہ کیا بی جے پی حکومت میں رہتی ہے یا کانگریس دوبارہ برسراقتدار آتی ہے۔ بہرحال پاکستان کو امن کی خواہش کے مثبت جواب کا انتظار رہے گا۔