Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025

نوازشریف کی سالگرہ گھر پر یا جیل میں؟

***صلاح الدین حیدر***
دنیا بھر میں سیاست کے انداز نرالے ہیں۔ ہر ملک اور خطے کا اپنا معیار ہے۔ امریکہ میں سیاست دوسری جنگ عظیم کے بعد صاف ستھرا رنگ اختیار کرچکی تھی تاوقتیکہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نقشہ سیاست پر نمودار ہوئے اور ان کے طرزعمل سے لوگ اسے نیا نام دینے پر مجبور ہوئے۔ کسی نے اسے سانپ سیڑھی کا کھیل قرار دیا تو اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ موجودہ امریکہ میں سیاست شطرنج کی چالوں سے ہٹ کر ایک بیہودہ طرز اختیار کرچکی ہے۔ انگلستان، فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک میں یہ ابھی تک پرانی روایت پر قائم ہے۔ ہاں جنوبی ایشیا میں کچھ اور ہی طر ز کی سیاست ہے۔ مستحکم، جمہوریتوں میں سیاست کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ میں تو سیاست محض ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے یہاں حکومت بنتے ہی اس کی ٹانگ کھینچی جانے کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ یہی کچھ 18 اگست سے جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا دیکھنے میں آرہی ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ 100 دنوں میں نئی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ امریکی تصور ہے 100 دنوں کے اندر تو کوئی بھی حکومت ملکی معاملات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی اسے حالات کو سمجھنے میں ظاہر ہے وقت لگتا ہے۔ جب اندازہ ہوتا ہے کہ مسائل کی نوعیت کیا ہے یا مسائل کی گہرائی کتنی ہے تو تب جاکر ان مسائل کے حل کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے اور اہداف مقرر کیے جاتے ہیں۔ کامیابی یا ناکامیاں تو وقت گزرنے کے ساتھ ہی دکھائی دیتی ہیں لیکن خود عمران خان نے جلدی میں ایسے وعدے کر ڈالے جنہیں پورا کرنے میں 100 دن تو کیا 365 دن بھی ناکافی ہیں۔ ظاہر ہے کہ شکاریوں کی طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی جو انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہوئی تھیں غصے سے باہر ہوگئیں۔ انہیں تو عمران پر تنقید کے تیر برسانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ پھر کیا تھا؟ ہر طرف سے بوچھار ہونے لگی۔ عمران کو سب سے پہلے معیشت کی بحالی کی طرف قدم بڑھانے چاہیئے تھے تاکہ ملکی نظام چلانے کیلئے زمین ہموار کی جاسکے۔ کرپشن کے نعرے پر وہ الیکشن جیت کر تو آئے تھے انہیں بدعنوانیاں ختم کرنے کا مینڈیٹ ملا تھا اسے پورا کرنا بھی ان کا فرض اولین میں شامل تھا لیکن پہلے دن سے غلطیاں شروع کر دی گئیں، بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھانے اور کرنسی کی قیمت کو گرانے سے بچانے پر فوری توجہ کی ضرورت تھی جس میں دیر ہوئی جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہونا لازمی تھا۔ مخالفین کی گود میں جیسے سیب خود آن ٹپکا ہو۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا عمران پر تنقید ہونا شروع ہوگئی، عدلیہ اور فوج جو خود عمران کے مطابق ان کے ساتھ کھڑی تھیں انہیں بھی مشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔ ’’کرے کوئی اور بھگتے کوئی اور‘‘ کی زندہ مثال تھی۔ 
 پاکستان میں بدعنوانیاں، منی لانڈرنگ اور پاکستانی روپیہ بیرون ملک میں جمع کرنے کا جو بھونڈا پن پچھلے 10 برسوں سے اپنایا گیا تو وہ ظاہر ہے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ لوگوں نے عمران کے نعرے پر لبیک کہہ کر انہیں تخت نشین کیا لیکن بڑے بوڑھے کہتے ہیں نا کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ اس کی کمی ہمیں پی ٹی آئی کی کابینہ میں چند افراد کی طرف سے خاص طور پر دکھائی دی۔ 24 دسمبر کو ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ کے مقدمات کا فیصلہ آجائے گا دیکھنا یہ ہے کہ وہ 25 دسمبر کو اپنی سالگرہ گھر پر مناتے ہیں یا جیل میں۔ اسی طرح آصف زرداری اور ہمشیرہ کے خلاف 35 ارب کی منی لانڈرنگ کے الزامات پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہیں بھی نئے سال کی مبارک باد ملے گی یا پھر جیل کی سلاخوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومتی مشیر اکبر شہزاد کے مطابق تو جعلی بینک اکائونٹس جو کسی چائے والے، مرغ چھولے بیچنے والے اور دوسرے کئی ایسے غریب غرباء کے اکائونٹس میں سے کروڑوں اربوں روپے نکلے جو ظاہر تھا کہ کسی امیر آدمی نے اپنی ناجائز دولت چھپانے کے لئے دوسرے اکائونٹس میں جمع کروا دی تھیں تاکہ نیب کے شکنجوں سے بچ سکیں لیکن حکومت کے پاس بے پناہ اختیار اور وسائل ہوتے ہیں، وہ یہ بھول گئے کہ اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور نیب سب ہی اس غیر قانونی کھیل کا چند دنوں میں ہی پتہ چلا لیں گے اور اب تو یہی لگتا ہے کہ پھندا آصف زرداری اور فریال تالپور کے گلے میں پھنسا نظر آتا ہے۔ زرداری نے بھی جو سیاسی کھلاڑی ہیں کمال کر دیا ہے یہ کہہ کر کے میرے پاس پیسا تھا میں جہاں چاہوں جمع کرائوں، کسی کو اس سے کیا؟ واہ کیا خوبصورت جواز پیش کیا گیا، کسی مہذب ملک میں یہ شرمندگی کا باعث بن سکتا تھا لیکن پاکستانی عوام بے چارے مظلوم تو خیر نہیں لیکن یہ کھیل تماشہ دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اور اب انہیں انصاف کی توقع ہے ہی نہیں۔ میڈیا میں بھی پرانی حکمرانوں کے تنخواہ خوار بجائے صدائے آواز احتجاج بلند کرنے کے محض چاپلوسی پر اترے نظر آئے، برے اور بھلے کی تمیز کرنی مشکل ہوگئی ہے۔ یہ مملکت پاکستان جہاں انصاف تقریباً ناپید ہوچکا ہے کے لئے زہر قاتل ہے لیکن غالب کے مطابق رویئے بار بار کیوںکیجئے ہائے ہائے کیوں۔ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ عوام خاموش تماشائی رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ انہیں اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں بھلائی صرف اپنے کام سے سروکار رکھنے میں ہی ہے ورنہ سچ بولنے پر زندگی سے بھی ہاتھ دھوسکتے ہیں۔ کئی ایک مسئلے موجود ہیں جہاں تفتیش کرنے والے افسران موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
آج اگر نواز شریف اور زرداری مل بیٹھ کر کچھ کرنے کا فیصلہ کرلیتے تو اس کی بھی وجہ عمران کا وہ بیان ہے جو شاید انہوں نے مذاقاً اپنی پریس کانفرنس میں دیا تھا کہ وقت سے پہلے ہی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ نواز اور زرداری دونوں کو ان پر وار کرنے کا نیا موقع ہاتھ آگیا لیکن 
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
عمران کو ذرا سی احتیاط کی ضرورت ہے، اپوزیشن خود بھی تقسیم ہے اور عمران کی حکومت میں اختر مینگل یا ایم کیو ایم بھی ساتھ چھوڑنے میں اپنے لئے مزید خطرات مول لیں گی تو پھر عمران کی حکومت کو آئندہ 2 یا 3 برسوں تک کوئی خطرہ نہیں۔
 

شیئر: