کیا ٹویٹر سعودیوں کے خلاف جانبدار بن گیا؟
جمعرات 20 دسمبر 2018 3:00
ڈاکٹر محمد المسعودی ۔ الریاض
امریکی میگزین ٹائم نے اکتوبر 2007ءمیں اپنے کور کی شہ سرخی ”ٹویٹر مشکوک انقلاب“ تحریر کی تھی۔میگزین کے ایڈیٹر انچیف نے ٹویٹر پر ایک پورا صفحہ دیا تھا۔مواصلات کی دنیا میں ٹویٹر کے طوفانی انقلاب اور برق رفتار دنیا میں رابطہ جات کی شروعات سوشل میڈیا اور اس کی مختلف دنیاﺅںپر جھلکیاں بھی پیش کی تھیں۔
”ٹویٹر“ آج بلاشبہ عظیم الشان مواصلاتی انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ یہ ”نینو“ کی رفتار سے آگے بڑھا ہے۔ اب یہ کسی کے بھی کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے۔ اسی تناظر میں بعض لوگوں کی نظر میں یہ بیحد پرخطر ہوچکا ہے۔یہ بہت سارے لوگوں کو نگل گیا ہے۔ کئی لوگ اسکا تجزیہ اپنے تصور ، اپنی ثقافت اور ٹویٹر میں مضمر مثبت و منفی عناصر کے حجم کے ادراک نیز معاشروں کی ثقافت و تربیت ، سماجی و اقتصادی حالات پر اس کے اثرات کے تناظر میں کررہے ہیں۔
محمد بن راشد گورنمنٹ مینجمنٹ کالج نے 2017ءمیں عرب سماجی ابلاغ کی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس میں بتایا گیا کہ عرب اور خلیجی تعاون کونسل کے ممالک میں سب سے زیادہ ٹویٹر استعمال کرنے والے سعودی شہری ہیں۔ مملکت کے بعد امارات دوسرے ، کویت تیسرے ، قطر چوتھے ، بحرین پانچویں اور سلطنت عمان چھٹے نمبر پر ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جی سی سی ممالک میں سب سے زیادہ عوامی مقبولیت ٹویٹر کو ہی حاصل ہے۔
سعودی شہری حالات حاضرہ ، عوامی سرگرمیوں ، رائے عامہ کے مسائل اور ہنگامی خبروں کیلئے ٹویٹر ہی کا سہارا لے رہے ہیں۔ سعودیوں کو ٹویٹر کی صورت میں بحث مباحثے ،ملنے جلنے ا ور کسی قید و بند کے بغیر اظہار رائے کی آزادی کا عظیم الشان پلیٹ فارم ہاتھ آگیا ہے۔ ٹویٹر سے متعلق اہل سعودی عرب کے رجحانات بدل رہے ہیں۔ انہوں نے اب ٹویٹر کووطن عزیز، اپنے قائدین او رپے درپے بحرانوں کے دوران اپنے مستقبل کے دفاع کیلئے مضبوط پلیٹ فارم کے طورپر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
سعودی عوام ٹویٹر اور ہیش ٹیگ کی دیوارو ںپر صف بستہ نظر آرہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب سعودی شہری اپنے وطن کا دفاع بیک آواز نہ کرتے ہوں۔ وہ اپنے فرمانروا اور انکے ولی عہد پر فخر وناز کا اظہار ٹویٹر پر پوری قوت سے کررہے ہیں۔ وہ ارض وطن میں ہر روز جنم لینے والے کارناموں پر اپنی ریاست کی تعریف و توصیف میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس موقع پر سرحدوں کے محافظ اپنے فوجیوں کی جانثاری کا تذکرہ بھی فخریہ انداز میں کررہے ہیں۔ انہوں نے درست معنوں میں ٹویٹر کو وطن عزیز اور اس کی قیادت کے ہر دشمن کے خلاف مشترکہ موقف کے بھرپور اظہار کا ذریعہ بنالیا ہے۔
جو لوگ ٹویٹر پر سعودی شہریوں کی ثابت قدمی ، مستقل مزاجی ، وطن عزیز کی ہمنوائی اور اپنی قیادت کی پشت پناہی پر مشتمل تبصرے دیکھ رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں،جو لوگ بحرانوں میں تہلکہ برپا کرنے والوں کے خلاف سعودیوں کی صدائے احتجاج سن رہے ہیں او ران کے خیالات کا مطالعہ کررہے ہیں، انہوںنے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ٹویٹر سعودی ریاست اور ٹویٹ کرنے والے سعودیوں کے خلاف جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ٹویٹر نے بہت سارے سعودیوں کے اکاﺅنٹ بند کردیئے اور کئی کےخلاف جانبدارانہ کارروائی کی۔ یہ سب کچھ اس انداز سے ہورہا ہے گویا ٹویٹر بھی علاقائی و بین الاقوامی سعودی مخالف میڈیا کے شانہ بشانہ چل رہا ہو۔
میں اپنی گفتگو ایک سوال پر ختم کرنا چاہوں گا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹویٹر کمپنی اور اسکی انتظامیہ سچ مچ سعودیوں کے خلاف جانبدار ہوگئی ہے؟ سعودی ریسرچ اینڈ اسٹڈیز سینٹرزکا کردار اس حوالے سے کیا ہے ؟ مملکت کے ابلاغی ، سیاسی اور اسٹراٹیجک مطالعات و تحقیق کے مراکز نیز سرکاری یا نجی ریسرچ سینٹرز کا فرض یہ نہیں بنتا کہ وہ حقیقت حال کو اجاگر کریں اور اس گتھی کو سلجھانے کی فکر کریں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭