شاہ سلمان کے عہد میں معیاری اقتصادی کارنامے
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے بیعت کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر اقتصادی کارنامے ملک و قوم میں موضوع سخن بنے ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سعودی اقتصاد قومی خزانے کےلئے تیل پر آمدنی کے واحد وسیلے کی حیثیت سے انحصار کئے ہوئے تھا۔ اسکے بعدآمدنی کے وسائل میں وسیع البنیاد تنوع کا دور شروع ہوا۔ بجٹ نے سرکاری منصوبوں کی فنڈنگ میں بڑی رواداری اور لچک کا مظاہرہ کیا۔ ماضی کا قصہ یہ تھا کہ تیل منڈی میں اتار چڑھاﺅ سے پورا بجٹ الٹ پلٹ ہوجاتا تھا۔ ایک زمانے تک تیل کے نرخ آسمان سے باتیں کرتے رہے۔ اُس دور کو آمدنی کے حوالے سے ”ابال“ کا دور کہا جاتا ہے۔ مقامی زبان میں اسے ”طفرہ“ کا دور کہا جاتا ہے۔ ماضی میں تیل کے نرخ گھٹتے تو سرکاری منصوبوں پر کام رک جاتا۔ کساد بازاری چھا جاتی۔ منصوبہ بندی متاثر ہوتی۔ متوازن شرح نمو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا عہد آیا تو انہوں نے اس بڑی خرابی کی اصلاح کا اہتمام کیا۔ انہوں نے قومی خزانے کے لئے مختلف مالی وسائل اپنائے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس ، منتخب اشیاءپر ٹیکس، بانڈز وغیرہ متعارف کرا کر آمدنی کے نئے وسائل سے قومی بجٹ کو متعارف کرایا۔
شاہ سلمان کے اس تاریخی کارنامے نے سعودی اقتصاد کو روایتی قیود سے آزاد کردیا۔ نئے نمونے نے ثابت کردیا کہ قومی بجٹ پیٹرول کے نرخ 85ڈالر تک پہنچیں اور اچانک 60ڈالر سے کم ہوجائیں تو اس سے قومی بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی روشن مثال یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار وقت آنے سے پہلے ہی 2019ءکے قومی بجٹ کے نمایاں نقوش کا اعلان کردیا گیا۔ توقعات یہ ہیں کہ سعودی اقتصاد کی شرح نمو1.7فیصد ہوگی۔ یہ داخلی تخمینہ ہے۔ خارجی تخمینہ یہ ہے کہ شرح نمو اس سے زیادہ ہوگی۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے عہد میں سعودیوں اور قومی اقتصاد کو بڑی کامیابیاں ملیں۔ حرمین ٹرین اور سارٹرین کا افتتاح ہوا۔ مشرقی ریجن میں گیس او رپیٹرول کے عظیم الشان منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ مغربی ریجن میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بحر احمر کے منصوبے شروع کئے گئے۔ نیوم شہر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ ریاض میں میٹرو منصوبہ جلد ہی پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ آئندہ برس اسکا افتتاح ہونے والا ہے۔ اسی طرح القدیعہ اور الدرعیہ منصوبہ ، تبوک کے منصوبے ، الجوف ، حدوشمالیہ اور تبوک کے اربوں ریال کے منصوبے ان میں سے چند ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭