Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025

عمران خان نے روڈ میپ قوم کے سامنے رکھ دیا

کراچی (صلاح الدین حیدر ) وزیراعظم عمران خان نے بھی بالاخر اپنی حکومت کے 100 دن کی رپورٹ پیش کردی۔ ساتھ ہی آئندہ کے لائحہ عمل کا روڈ میپ بھی قوم کے سامنے رکھ دیا ۔ اگر اس کے اقتباسات پر غور کیا جائے تو زیادہ زور ملک سے باہر رکھی ناجائز دولت عوام کو لوٹانے پر رکھا۔ اصل بات، یعنی تعلیمی اور صحت کے اداروں پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ان کی تقریر پر اپوزیشن کا منفی ردعمل کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پوزیشن کا کام ہی حکومت وقت کو نیچا دکھانا اور اندرونی حالات اپنے حق میں کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ مریم اورنگزیب، خورشید شاہ یا بلاول بھٹو کچھ بھی کہیں، تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ہوئے صرف 100 دن کا قلیل عرصہ گزرا ہے، کچھ نہ کچھ تو اچھے کام کئے ہیں لیکن وہ یا تو دکھائی نہیں دیتے یا پھر لوگ ان پر توجہ نہیں دیتے۔ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد اب عمران نے 18 اگست کو منصب اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو لوگوں میں ایک امید کی نئی لہر دکھائی دی تھی، ان کی آنکھوں میں مسرتوں کے چراغ روشن ہو گئے تھے۔ اچھی حکومت وجود میں آئے تو ان کے دکھ کا درمان بن سکے۔ 
29 نومبر کی تقریر سے بھی یہی توقع کی جارہی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران نے نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پڑوسی ملک ہندوستان کے وزیر اعظم کو دعوت مذاکرات دی مگر افسوس کہ جواب امید کے برخلاف تھا۔ مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تو بہت کامیاب رہے تھے، لیکن اتنی وسیع و عریض خطہ زمین کو سنبھالنا جہاں زبان و ثقافت میں میلوں کا فاصلہ ہو، وہاں یکسوئی پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے، لیکن مودی نے بجائے اپنے ملک میں بھائی چارے کی فضاءقائم کرنے کہ شرانگیز تنظیموں کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں ہار ماننے کے بعد ان ہی میں گھل مل گئے۔ بی جے پی کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا ہے۔ پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ہندومت کو فروغ دینا، جو اکثر قائدین کو واضح طور پر مقصد سے دور کر دیتی ہے۔ برصغیر میں امن ہونا شرط اولین ہے لیکن کاش یہ مودی اور سشما سوراج جو کہ ہمیشہ سے ہی پاکستان مخالفت میں دوسروں سے دو قدم آگے ہی رہے ہیں۔ عمران پھر بھی مایوس نظر نہیں آئے اور ہند میں ہونے والے انتخابات کے ختم ہونے کے انتظار کو ترجیح دی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ کرتار پور بارڈر کھول کر اور سکھوں کو بغیر ویزا پاکستان میں اجازت دے کر مودی کی انتخابی مہم کو سخت دھچکہ پہنچایا۔ ظاہر ہے کہ کانگریس اس بات پر بہت خوش ہوگی۔ اس بات کا خیرمقدم امریکی حکومت نے بھی کیا اور امید ظاہر کی ہے کہ عمران اپنے مقاصد میں ہند پاکستان کے تعلقات کو سنوارنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ 1993ءسے ہر حکومت آئی ایم ایف کی مقروض رہی ہے۔ عمران کو بھی بادل نخواستہ بین الاقوامی قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ فی الحال تو وہ جنوری تک انتظار کریں گے لیکن تمام تر شواہداسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کم از کم 6 ارب ڈالر قرضہ لینا پڑے گا۔ عمران نے قوم کو صاف بتا دیا کہ مایوسی اور بے چینی کے دن جلد ہی ختم ہوجائیں گے اور اگر قدرت نے ساتھ دیا اور بیرونی سرمایہ کاری اس قدر پاکستان میں آئے گی کہ نوکریوں کا پٹارہ کھل جائے گا۔ عمران کو چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک، جاپان، فرانس، انگلستان، جرمنی اور ہالینڈ سے رابطہ کریں۔ کوشش کریں کہ وہاں کا دورہ کر کے اپنی بات منوا سکیں یا پھر ان تمام ممالک کے سربراہان مملکت کو پاکستان آنے کی دعوت دیں تاکہ وہ اپنے سرمایہ کار اور باری باری کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے سکیں۔ ایسا کرنا لازمی ہے اگر اقتصادی ترقی کی منزل طے کرنے کے صدق دل سے خواہشمند ہیں۔ ملک میں نئی صنعتیں لگیں تو لوگوں کو روزگار مہیا ہوگا اور پاکستانی روپے کی قدر و قیمت دوبارہ بحال ہو جائے گی، مختصر یہ کہ عمران نے اگر کئی اہم باتوں کو نظر انداز کیا تو کئی ایک اہم تجاویز سے بھی قوم کو باخبر کرنے کی سعی کریں۔ اپوزیشن کیا کہتی ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ملک کی لگام آپ کے ہاتھوں میں ہیں، آپ کس قدر ہوشیاری اور عقلمندی سے اسے استعمال کرتے ہیں، یہ آپ پر ہے۔
 

شیئر: