Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025
جمعہ ، 20 جون ، 2025 | Friday , June   20, 2025

سپریم کورٹ نیب سے شاکی کیوں نہ ہو؟

***صلاح الدین حیدر***
 نیب یا قومی احتساب بیورو کے بارے میں متضاد آراء ہیں۔ ایک ایسا ادارہ جو ملک سے کرپشن ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، کبھی تو بہت شاندار کارنامے انجام دیتا ہے اور کبھی اپنی سست رفتاری کی وجہ سے اکثر و بیشتر تنقید کا نشانہ بنا رہتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی اس سے شاکی نظر آتی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ عدالت عظمی کے چیف جسٹس اور دوسرے سینیئر ججوں کے سامنے جس رفتار سے مقدمات پیش کیے جارہے ہیں اس رفتارسے نیب ابھی تک شاید پیچھے رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسے کئی بار ٹوکا۔ دراصل نیب سب سے پہلے نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں بنائی تھی تاکہ آصف زرداری یا بے نظیر بھٹو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس کی تفتیش کی جائے اور اگر الزامات ثابت ہوئے تو تادیبی کارروائی کی جاسکے لیکن نواز شریف سے چونکہ بہت بھاری غلطی ہوگئی تھی کہ انہوں نے اپنے دوست سیف الرحمن کو جو کہ قطر میں کاروبار کرتے ہیں لیکن وہ نون لیگ کو حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی لاہور آدھمکے اور انہوں نے اپنا سارا زور زرداری اور بے نظیر کی بدعنوانی کی کھوج میں صرف کردیا۔ کسی قدر تو وہ کامیاب ہوئے۔ ایک بینک کے لاکرز سے بے نظیر کا بہت قیمتی ہار اور بھاری رقم پر ہاتھ ڈال کر عوام کے سامنے ان کی شہرت کو گہنا دیا۔ زرداری تو پہلے سے ہی مسٹر 10 پرسنٹ مشہور تھے، بے نظیر بھی کرپشن کے الزام سے بچ نہ سکیں لیکن شاباش ہے زرداری پر کہ ایک طویل عرصہ جیل میں رہنے کے باوجود نیب ان سے کچھ بھی نہ اگلوا سکی اور زرداری بیشتر الزامات سے باعزت بری قرار دے دیئے گئے۔ ایک طرف تو زرداری کی پیسے کی ہوس رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی تو دوسری طرف جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو ان پر بھی ناجائز دولت کمانے کا الزام نہ صرف لگا بلکہ ایک بین الاقوامی ادارے نے پانامہ پیپرز چھاپ کر انہیں دنیا اور پاکستانی قوم کے سامنے بے نقاب کردیا۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے 5 رکنی بینچ بنائی جس نے ایک جے آئی ٹی کے ذریعے ہر زاویے سے ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا اور تقریباً ایک سال کے عرصے کے بعد نیب نے نواز شریف کے خلاف شواہد پیش کردیئے جس پر پہلے تو انہیں ملک کے منصب اعلیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ مستقبل میں بھی انتخابی سیاست سے باہر کردیا گیا۔ بات یہی تک نہیں رکی۔ نیب نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ان کے دونوں بیٹوں شہباز اور سلمان کے خلاف بھی بہت سارے شواہد اکٹھے کر لیے کہ دونوں نے غیر قانونی کام کیے تھے۔ نواز کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نے انگلستان میں پناہ لی اور نواز حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو ہارٹ اٹیک کا بہانہ بناکر لندن کے ایک اسپتال میں داخل ہوگئے لیکن کچھ دنوں بعد وہ لندن کی سڑکوں پر دندناتے نظر آئے۔ کیسی بیماری؟ کیسا دل کا مرض؟ ٹی وی کیمرے کی آنکھوں نے سب کچھ عوام کے سامنے پیش کردیا۔
اب نواز شریف جو کہ العزیزیہ اور ایک دوسرے کیس میں زیر تفتیش ہیں یہ کہتے ہیں کہ کیا ان کے بیٹوں کو کاروبار کا حق نہیں تو پھر وہ یہ بھی بتا دیں کہ ان کے دوسرے دور حکومت کے حسن نواز نے انڈیا سے کاروبار کرنے والوں کے لیے ریلوے بوگی کا ٹھیکہ خود اپنے ذمہ کیسے لے لیا۔ اسی طرح حمزہ شہباز بھی جواب دیں کہ کیا ان کی پولٹری کے بزنس پر مکمل اجارہ داری نہیں تھی جب تک حمزہ شہباز پولٹری کے دام نہیں کھولتے تھے کسی اور کو مارکیٹ میں یہ کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ سارے کا سارا خاندان قومی دولت پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھا رہا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ان ان کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے لیکن قدرت کے کام عجیب ہی ہوتے ہیں۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ سب ہی نیب کے آگے بے بس نظر آئے۔ ’’مجھے کیوں نکالا کی‘‘ صدا کے بعد مکمل خاموشی ہے۔ وفتاً فوقتاً نواز اور شہباز کچھ نہ کچھ ایسے سوال اٹھا دیتے ہیں جن کا اگر جواب دیا جائے تو کہیں کے نہ رہے۔ قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا گیا جس کی وجہ سے عمران خان کے زمانے میں مہنگائی بہت بڑھ گئی، ڈالر 108 سے بڑھ کر 134 کا ہوگیا، معیشت برباد ہوگئی لیکن شریف برادران اس کا جواب نہیں دیتے کہ آخر ان کے پاس بے پناہ دولت کہاں سے آئی؟ شریف برادران کے والد مرحوم میاں شریف نے پوتوں کو براہ راست اپنی جمع پونجی دے ڈالی لیکن 1998ء میں حسن اور حسین کی عمر کیا تھی، انہوں نے لندن میں 800 ارب روپے کا فلیٹ ایوان فیلڈ اپارٹمنٹ اور لمبی چوڑی عمارت مے فیئر اسٹریٹ پر ہائیڈ پارک کے سامنے کیسے خریدی۔ آج تک ن باتوں کا جواب تو ملتا نہیں بس یہی رٹ لگائی جارہی ہے کہ میرا قصور کیا ہے؟ تو حضور نیب تو صرف اتنا پوچھ رہی ہے کہ بتا دیں کہ پیسے آئیں کہاں سے؟ فیصلہ ہوجائے گا۔ ایک ہائی کورٹ کے جج نے انہیں جیل سے ضمانت پر رہا کردیا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ نیب کے افسر جو شواہد پیش کرنے پر معمور تھے انہوں نے حقائق کیوں چھپائے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر کے نواز شریف اور مریم کو دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے لیکن نیب سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کے ماتحت ہوتے ہوئے بھی صرف نظر کی ہوئی ہے، دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے۔
 

شیئر: