Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 21 جون ، 2025 | Saturday , June   21, 2025
ہفتہ ، 21 جون ، 2025 | Saturday , June   21, 2025

پاکستانی میڈیا پھر نرغے میں

  کراچی (صلاح الدین حیدر )پا کستا نی میڈیا جس نے 1963کے پریس آرڈیننس کے بعد جنرل ضیاءالحق کی حادثاتی موت کے فوری بعد اپنی کھوئی ہوئی آزادی دوبارہ حاصل کی پھر زنجیروں میں جکڑ ا جانے والا نظر آرہا ہے ۔ کراچی پریس کلب میں جو پاکستانی کی سب سے بڑا اور اہم پلیٹ فارم ہونے کے علاوہ آزادی صحافت کا منبع، مرکز و محور رہا ہے ، جہاں سے آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کےلئے مسلسل جدوجہد جاری رہی ہے کچھ سادہ لباس میںملبوس لوگ اور اسلحہ بردار پولیس بلا اجازت اور بلا کسی وجہ کے گھس آئے ،کسی پر تشدد تو نہیں کیا لیکن لوگوں سے پوچھ گچھ ضرور کی، ظاہر ہے کہ اطلاع ملتے ہی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے لوگ وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوگئے زبردستی گھس آنے والے اشخاص معاملے کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہی رفو چکر ہوگئے ۔کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ کیوں اور کس وجہ سے ہوا چند ہفتوں سے اخبارات میںمضمون چھپ رہے ہیںکہ پاکستانی میڈیا جو بڑی قربانیاں دے کر 40سال کے بعد اپنا پیدائشی حق دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوا تھا پھر دشمن کے نشانے پر ہے ۔ کئی ایک مثالیں دی گئیں کہ کس طرح آزادی اظہار کے دشمن میڈیا کو ہراساں کرنے پر تلے ہوئے ہیں سپریم کورٹ کے حالیہ حکام نے صحافیوں میں ہیجان برپا کردیا ۔اس میں غیر تربیت صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کا بھی ہاتھ ہے کہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہیں اور ایسے موضوعات پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور میزبان کو ترغیب دیتے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہمیشہ سے ہی یہ روایت رہی ہے کہ کسی بھی عدالتی کیس کی پیروی کے دوران کوئی تبصرہ ، تجزیہ نہیں کیا جاتا ،اس سے کسی بھی پارٹی جو کیس میں ملوث ہے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ نہ صرف ٹی وی اینکربلکہ شرکائے گفتگو جس میں صحافی شامل ہیں کھل کر عدالتی کیس پر تبصرے اور تجزیئے ایسے کرتے ہیں جیسے یہ ان کا حق ہو۔ گزشتہ 2روز سے مختلف ٹی وی چینلز پر عجیب ہی کھیل تماشا دیکھنے میں آرہا ہے کہ پنجاب نیب کے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد نے کھل کر شہباز شریف انکے دونوں بیٹوں حمزہ اور ملک سے فرار ہونے والے سلمان شہباز کے بارے میں سارا کچا چھٹا عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ ان کے مطابق سابق ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق اوران کے چھوٹے بھائی سلمان رفیق دونوں ہی پیراگون کمپنی میںشراکت سے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے کے الزام میں مطلوب ہیں ۔ سلیم شہزاد نے یہاں تک کہہ دیا کہ چونکہ نیب کا ڈائریکٹر جنرل کسی کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے کا مجاز نہیں یہ اختیار صرف نیب کے چیئرمین کا ہے اس لئے انہوں نے نیب کے چیئرمین سے اجازت لے لی ہے کہ 14نومبر کو جب احتساب عدالت میں ان کے خلاف کیس آئے گا اور عدالت نے قابل از گرفتاری ضمانت کی مزید اجازت نہیں دی تو وہ دونوں بھائیوں کو عدالت سے نکلتے ہی قید کرلیں گے۔ ان کے خلاف بہت زیادہ ثبوت ہیں ۔ سلیم شہزاد نے یہاں تک کہہ دیا کہ وزیراعظم کے سابق سیکریٹری فواد حسن فواد کو شہباز شریف کے سامنے بٹھایا گیا۔ ان سے جب سوالات کئے گئے تو وہ رونے لگے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کے کہنے پر کیا ۔نیب کے ڈی جی نے انہیںدلاسا دیا کہ روئیں مت ، حوصلہ رکھیں ، پھر شہباز شریف نے بھی اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور حوصلہ اختیار کرنے کو کہا۔ بعد میں شہباز شریف نے نیب کے لوگوں سے کہا کہ اسے میرے سامنے سے لے جائیں ۔ عدالت کی کارروائیاں عدالت سے باہر آکر نہیں بتائی جاتیں ، جو لوگ عدالت میں موجود ہیں وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکتے ہیں لیکن اسے اطلاع عا م نہیں بناسکتے ۔ یہ عدالت کے قوانین کے خلاف ہے اور شاید توہین عدالت کے زمرے بھی آتا ہو لیکن ڈی جی نیب کے مطابق شہباز شریف کیخلاف بہت ثبوت موجود ہیں۔انہیں دوبارہ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ظاہر ہے کہ چیف جسٹس خاموشی سے تو نہیں بیٹھ سکتے ، انہوں نے پیمرا کو حکم دیا کہ وہ ٹی وی اور ریڈیو کے مسودات کی پہلے سے نگرانی کرے تاکہ کوئی غلط چیز نشر نہ ہوسکے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی عدالت میڈیا پر پابندیاں عائد کرسکتی ہے، کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی ۔ یہ تو سنسر شپ کے زمرے میں آتا ہے جس کی میڈیا سخت مخالفت کرے گا۔ ہاں میڈیا کو ہدایات دی جاسکتی ہیں کہ فلاں چیز غیراخلاقی یا عدالتی روایات کیخلاف ہونے کے سبب نشر نہیں کی جاسکتی، وہ اور بات ہے۔ 

شیئر: