ڈاکٹر فوزیہ البکر۔۔الجزیرہ
ہمارے معاشرے میں گزشتہ 30برسوں کے دوران شدت پسند مذہبی بیداری کا غلبہ رہا۔ اس دوران ایسی سماجی اورثقافتی قدروں نے سرابھارا جن کا ماننا تھا کہ خواتین کلیدی عہدوں پر سرفراز نہیں ہوسکتیں۔ ان کا کام بیوی اور ماں کی حیثیت سے خاندانی امور انجام دینے تک محدود ہے۔ اس سوچ نے تعلیم ، روزگار اور عوامی زندگی سے متعلق خواتین کا دائرہ کار انتہائی تنگ کردیا۔ اُس وقت کے فیصلہ سازوں کا ذہن یہ بن گیاتھا کہ خواتین تعلیم اور روزگار کی بابت اتنا کچھ ہی سیکھیں اور سمجھیں جو سماج میں ان کے کردار کیلئے ناگزیر ہو۔ اس طرح خواتین کو فیصلہ ساز عہدوں سے دور کردیا گیا۔ انہیں بہت سارے دفتری و انتظامی معاملات سے الگ تھلگ کردیا گیا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ قائد کا کردار مردوں تک محدود ہے کہ مالیاتی اور انتظامی امور چلانے کیلئے درکار ذہن کے مالک مرد ہی ہوتے ہیں۔
سعودی وژن 2030منظر عام پر آیا۔ اس کے خالق شہزادہ محمد بن سلمان نے نئی طرح ڈالی۔ اس پر حالات نے نیا رخ اختیار کیا۔ سرکاری و نجی اداروں میں کام کرنیوالی خواتین کے معاملات کی بابت تبدیلیاں آنے لگیں۔ خواتین کے حق میں نئی پالیسیاں بننے لگیں۔ انہیں بعض کلیدی عہدے دیئے جانے لگے تاہم برسرروزگار سعودی خواتین کی تعداد کے تناسب سے یہ عہدے بیحد کم تھے اور ہیں۔ کلیدی عہدوں پر فائز خواتین کی تعداد نہایت محدود ہے۔ گیارہویں اور اس سے اوپر کے گریڈ پر تعینات خواتین کا تناسب 1.27فیصد سے زیادہ نہیں۔ یہ بات کنگ سعود یونیورسٹی میں 2017ء کے دوران پیش کئے گئے پی ایچ ڈی کے مقالے میں واضح کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں درمیانے درجے کے انتظامی عہدوں پر صرف 10خواتین فائز ہیں جبکہ مرد عہدیداروں کی تعداد 36ریکارڈ کی گئی۔ پی ایچ ڈی کے مقالے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر اب بھی مردوں ہی کی اجارہ داری ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کی تعداد سعودی عرب میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں کم ہے۔ نائب وزیر کے عہدے پر صرف ایک خاتون فائز ہے۔ مستقبل میں قومی تبدیلی اسکیموں کے تحت توقع کی جاتی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کا تناسب 2020تک 5فیصد ہوجائیگا۔
ریاض میں پبلک مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ میں قائد خواتین کے حوالے سے منعقد ہ ورکشاپ میں بہت ساری باتیں سامنے آئیں۔ یہ ورکشاپ فروری 2018ء میں منعقد ہوا تھا۔ بہت ساری خواتین نے واضح کیا کہ وہ اعلیٰ عہدوں کو پُر کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ دیگر نے کہا کہ خواتین کے حق میں قومی پالیسیوں کے اندر واضح تبدیلی کے باوجودخواتین کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کیلئے شفاف حکمت عملی ناگزیر ہے۔
دوسری جانب ہمیں مختلف اقوام و ممالک کے یہاں خواتین کو ملنے والی سہولتوں اور ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات سے بھی روشنی حاصل کرنا ہوگی۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ سعودی مجلس شوریٰ نے خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرانے کیلئے قابل قدر کردار ادا کیا۔ اسی کے نتیجے میں 2017ء کے دوران ایک خاتون کو نائب وزیر محنت و سماجی بہبود کے منصب پر فائز کیا گیا۔ڈاکٹر تماضر الرماح کو فروری 2018ء میں یہ عہدہ دیا گیا۔علاوہ ازیں ڈاکٹر ہند آل الشیخ کو پبلک مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ میں شعبہ نسواں کا انچارج بنایا گیا۔ ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ آنے والا کل سعودی خواتین کیلئے درخشاں ثابت ہوگا۔ یونیورسٹیاں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کی دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں۔مختلف شعبوں کی سربراہی اور کالجوں کی قیادت کیلئے خواتین کی تقرری اس کی روشن مثال ہے۔ بعض عرب اور مسلم ممالک میں ہماری بہنیں وزیر بن کر ملک و قوم کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ مصر اس کی روشن مثال ہے جہاں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت میں 6وزارتوں کے قلمدان خواتین کے ہاتھ میں ہیں۔ یہی منظر نامہ خلیجی ممالک کا بھی ہے۔ جلد ہی وہ وقت آئے گا جب ہم سعودی عرب میں بھی یہی منظر دیکھیں گے۔ اللہ وطن عزیز کی پاسبانی کرے،آمین۔