Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 14 جون ، 2025 | Saturday , June   14, 2025
ہفتہ ، 14 جون ، 2025 | Saturday , June   14, 2025

چیف جسٹس کی صورت میں مسیحا

***صلاح الدین حیدر***
مملکت خداداد پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا، لیکن افسوس اسے اچھے قائدین نہ مل سکے۔  لٹیرے 1972 سے آج تک اقتدار پر قابض ہی نہیں رہے بلکہ اُس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنادیا ۔ ایک ملک جو دین اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہو، اُسے کسی مسیحا کی شدت سے ضرورت تھی۔آخرکار قوم کو خوش خبری مل ہی گئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی صورت میں اُسے ایک مسیحا مل گیا۔
چارج سنبھالتے ہی اس مردِ آہن نے نہ صرف مقدمات کے فیصلے سنانے شروع  کئے، مگر ساتھ ہی مختلف صوبوں میں بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف نظر کیا دوڑائی تو اُنہیں شاید شدید جھٹکا سا لگا کہ یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے۔ انتظامیہ کہاں ہے؟حکمراں فرائض سے غافل ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں مگن ہیں۔ ملک کی کوئی پروا نہیں۔ کاروبار ٹھپ، رشوت ستانی چہار سو پھیلی ہوئی ہے، عوام الناس پریشان ہیں، کسی کی کوئی دادرسی نہیں۔ بے جا تو خیر دُور کی بات ہے، جائز کام کرانے کے  لئے بھی خوشامد۔ افسران صرف پیسوں کے غلام۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کچھ دیر تو دیکھتے رہے، شاید اﷲ سے دعا کررہے ہوں کہ اُس کی طرف سے اصلاح ہوجائے لیکن جہاں لالچ اور خودغرضی ہی سب کچھ ہو، وہاں بالآخر اُنہیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی پڑی۔ اعتراض تو بہت ہوئے لیکن معترضین یہ بات بھول گئے کہ اگر خلا پیدا ہوگا تو کوئی تو اُسے پورا کرے گا۔ 
چیف جسٹس نے نہ صرف پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی بلکہ قوم کو یہ بات ذہن نشین کراکر ہی دم لیا کہ نہ صرف نلکوں سے گھریلو مصرف کے  لئے صاف و شفاف پانی کی اشد ضرورت ہے بلکہ ملک کو بنجر ہونے سے بچانے کے  لئے نئے ڈیمز بنانے اُس سے کہیں زیادہ ضروری ہیں اگر 2025 ء کے بعد پانی کے ذخائر ختم ہوگئے (جس کا شدید خطرہ ہے) تو اُس کے بعد صورتحال خاصی گمبھیر ہوگی، لہٰذا اُنہوں چندے جمع کرنے کی اپیل کی۔ قوم نے اُن کی آواز پر لبیک کہا اور ہر سو کیا غریب، کیا امیر، کیا بچے، کیا بوڑھے، سب نے اپنی بساط کے مطابق 10 روپے سے لے کر 10 کروڑ تک کی رقم اُن کے کہنے پر قومی خزانے میں جمع کرائی۔ 1400 ارب روپے کی خطیر رقم جمع کرنا آسان کام نہیں لیکن قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔
چیف جسٹس نے ٹینکر مافیا (جو لوگوں کے استعمال کے پانی کو چوری کرکے ہزاروں روپے کے عوض بیچتا پھر رہا ہے) کو لگام دینے کی سعی کی لیکن افسوس کہ ایک مُردہ معاشرے میں ضمیر نام کی کوئی چیز جب باقی نہ ہو تو پھر نیک نیتی بھی سعی لاحاصل ہوجاتی ہے۔ایسا یہاں بھی بدقسمتی سے ہوا۔ اس ٹینکر مافیا کے پیچھے بڑے بڑے، قدآور لوگ، وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز تک ملوث ہیں اور حاکمِ وقت جب خود ہی مجرم ہو تو پھر سوائے ہاتھ مَلنے کے کچھ اور حاصل نہیں ہوتا۔
انہوں نے کرپشن کے خلاف مہم چلائی، پاکستان کے وزیراعظم کو جیل ہوئی، قومی احتساب بیورو اور احتساب عدالتوں کو خوابِ غفلت سے جگایا، اُنہیں جھنجھوڑا کہ اُٹھو، اپنے فرائض کا احساس کرو، قوم پکار رہی ہے، تمہارے مُردہ ضمیر کو آواز دے رہی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ کچھ تو نتائج اچھے نظر آئے۔ معاشرہ راتوں رات تو تبدیل نہیں ہوتا، لیکن جہد مسلسل جاری رکھا جائے تو کسی نہ کسی روز بھلائی کی طرف قوم لوٹ جاتی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور فطرت کے قوانین کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ آج قوم بڑی حد تک جاگ چکی ہے، اپنا حق مانگ رہی ہے، قومی احتساب بیورو کو جھنجھوڑا، اُسے وارننگ دی، نیب سیاست زدہ آخر کیوں ہورہا ہے، اُسے بھی حرام کی لت لگ گئی ہے۔ کچھ مقدمات کو پوچھتا اور کچھ کو پوچھتا تک نہیں، نیب کا مقدمات میں ایک جیسا رویہ نہیں، رئیسانی کے گھر سے اربوں روپے ملنے کے بعد پلی بارگین کے لئے اُس کے پیچھے پڑ گیا۔ یہاں کہاں کا انصاف ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ نیب کو بڑے مقدمات پر نظر مرکوز رکھنی چاہیے تاکہ اربوں کروڑوں لوٹنے والوں کو سبق سِکھایا جاسکے۔
مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو چیف جسٹس کے سامنے ہے اور اُن کے لئے امتحان بنا ہوا ہے، لیکن یہ مردِ میدان بھی اپنی جگہ اَڑا ہوا ہے کہ جب تک عہدے پر ہوں، معاشرے کو سنبھالا دینے کی سعی جاری رکھوں گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دیامربھاشا ڈیم کے لئے کٹیا لگا کر بیٹھ جائوں گا اور قوم کی خدمت کا فرض پورا کروں گا۔ پانی کے نئے ذخائر بن کر رہیں گے۔ میں بھی آخری سانس تک لڑتا رہوں گا۔ جس ملک کو ایسے مسیحا مل جائیں، اُن کی تقدیر سنور جاتی ہے۔ اﷲ کرے پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ لوگوں کو اُن کے حقوق مل سکیں۔ بے ایمانی، چوری، لوٹ مار ختم ہو، انصاف کا بول بالا ہو۔ جب ہی ہم اسے پاکستان کہہ سکیں گے۔
 

شیئر: