اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گویتریس انتہائی خود غرض شخص ہیں ۔ خود غرض اس طرح ہیں کہ انہوں نے انتہائی مہارت سے ادارے میں اپنی نوکری محفوظ کر رکھی ہے…لیکن ٹھہریں میں ایک دوسرے زاویے سے بات کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ گزشتہ ہفتے مجھے اپنے موبائل پر ایک آڈیو اور 4ویڈیو کلپس موصول ہوئے ۔ آڈیو سے آغاز کرتے ہیں ۔ ایک 11،12سالہ بچی کی لرزتی بلکتی آواز ہے ۔ السلام علیکم ! میں جھانسی ضلع پروا ساگر سے بول رہی ہوں۔ ہمارے جھانسی میں اتنی لڑائیاں ہو رہی ہیں ہندو اور مسلمان کے بیچ اور میں مسلمان … ہم لوگوں مسلمانوں کو سب مار رہے ہیں ۔ میرے بھائی کو بہت مارا سب لوگوں نے اور یہاں پر بہو بیٹیوں کو بہت پریشان کر رہے ہیں ۔ پلیز یہ میسج ہمارے سارے مسلمان بھائیوں کو بھیجئے، ہماری جتنی بھی مدد ہو سکے کریں ۔
پولیس یہاں پر کچھ نہیں کر رہی۔ وہ ہندوئوں کا ساتھ دے رہی ہے اور ہندو لوگ روز رات کو ہمارے گھروں میں گھستے ہیں ہمارے بھائیوں کو مارتے ہیں ۔ ہم لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ پلیز ہماری مدد کیجئے۔ یہ میسج سارے مسلمان بھائیوں کو سینڈ کیجئے جس سے ہماری مدد ہو سکے پلیز …پلیز…
اور اب ویڈیو کلپس کی تفصیل ہو جائے ۔ پہلے کلپ میں دھاری دار سرخ قمیص اور جین میں ملبوس ایک باریش آدمی پر سفید جیکٹ ، سرخ قمیص اور کالی پتلون پہنے ایک آدمی حملہ آور ہو رہا ہے ۔ باریش آدمی کے پائوں میں ہوائی چپل ہے ۔ اس کے بائیں شانے سے خون بہہ کر سینے تک آچکا ہے ۔ وہ زور لگا کر جیکٹ والے کی گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرتا ہے اور بھاگ اٹھتا ہے ۔ جیکٹ والے کے ہاتھوں میں ایک کلہاڑی ہے اوروہ باریش آدمی پر لگاتار وار کر رہا ہے جو اس کی اٹھی کلہاڑی سے جان بچا کر نکل جانا چاہتا ہے ۔ اب دوسرا ویڈیو کلپ دیکھتے ہیں ۔ اس میں 4آدمی اسی باریش زخمی کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ اردگرد ہجوم کھڑا ہے ۔ سب کچھ شاہراہ پر ہو رہا ہے ۔ گاڑیاں اور بسیں آرام سے گزر رہی ہیں ۔ مضروب کے پاس پہنچ کر کلہاڑی والا پیچھے سے وار کرتا ہے اور باریش سڑک پر گر جاتا ہے ۔
تیسرے ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ زخمی سڑک پر پڑا تڑپ رہا ہے اور کلہاڑی بردار اس کی گردن پر مسلسل وار کرر ہا ہے ۔ مضروب کے تڑپتے بدن کو ساکن کر کے وہاں سے ہٹ جاتا ہے ۔ اس کے 3ساتھی کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ پولیس کی ایک گاڑی خاموشی سے جائے وقوعہ کی بائیں جانب سے دائیں کو گزر جاتی ہے ۔
چوتھے اور آخری ویڈیو کلپ میں قریب کی منظر نگاری ہے ۔ ہجوم اردگرد کھڑا ہے ۔ درمیان میں باریش مقتول کی لاش ہے ۔ گردن کٹ کر آدھی رہ گئی ہے ۔ نیچے خون ہے کلہاڑی بردار لاش کے سر پر کھڑا اسے غور سے دیکھ رہا ہے ۔ اس انتظار میں ہے کہ بے جان بدن میں کوئی حرکت ہو تو بڑھ کر ایک آدھ وار اور کر دے ۔ کیمرہ گھومتا ہے اور بائیں طرف کا منظر دکھاتا ہے جہاں ایک گلو بریدہ بدن خون میں لت پت پڑا ہے ۔
سرِ عام شاہراہ عام پر ، پُر ہجوم مقام پر کلہاڑیاں باریش مسلمانوں کی گردنیں اڑا رہی ہیں اور پولیس کی گاڑیاں بڑے سکوت سے تماشائی بنی منظر سے لطف اندوز ہوتی گزرتی ہیں ۔ یہ اہنسا کا پجاری انڈیا ، عبدالکلام آزاد کا انڈیا!
اور صرف 4دن کے بعد 2اکتوبر کو باپو موہن داس کرم چند گاندھی کی سالگرہ تھی !!
فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ اس دن ہی نئی دہلی میں اقوام متحدہ کے دفتر کا افتتاح کیا جائے گا چنانچہ یکم سے 3اکتوبر تک سیکریٹری جنرل انٹونیو گویتریس نے اپنے دورہ ہند کی منظوری دے دی تاکہ انہی کے ہاتھوں اس دفتر کا آغاز ہو سکے ۔ اس سے بہت پہلے 2007ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن قرار دے دیا تھا ۔
گویتریس کا دورہ انتہائی پر سکون اور فرحت بخش رہا ۔ پیر یکم اکتوبر کی سہ پہر انہوں نے نئی دہلی میں اپنے ادارے کے دفتر کا افتتاح کیا ۔ منگل 2اکتوبر انہوں نے لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن سے ملاقات کی اور پھر لوک سبھا کے اجلاس سے خطاب کیا ۔ موضوع تھا ’’عالمی مسائل اور ان کے حل ‘‘۔ اگلے دن انہوں نے صدر رام ناتھ کووند ، وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی اور فرحت انگیز ماحول میں ہلکے پھلکے موضوعات پر گپ شپ لگائی ۔
اسی سہ پہر انہیں گولڈن ٹمپل کا دورہ کرایا گیا جہاں سے برسوں کی برساتوں نے سکھ خون کے دھبے دھو دئیے تھے اور پھر 3اکتوبر بدھ کی رات انٹونیوگویتریس ہند میں امن و امان کے دورے سے مطمئن اور شاداںاور فرحاں واپس پر واز کر گئے ۔ انہیں خد ا نے یہ توفیق عطا نہ کی کہ پنجاب میں گولڈن ٹمپل سے باہر آتے وقت اپنے میزبانوں میں سے کسی ایک سے دبے لفظوں میں ہی یہ التجا بھی کر لیتے کہ انہیں تھوڑا ہی دور شمال میں جموں و کشمیر کا بھی دورہ کرا دیا جائے ۔ مختصر ہی سہی جہاں کے سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے باقاعدہ انہیں سرینگر دیکھنے کی دعوت بھی دے رکھی تھی ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںپر رپورٹ تو تحریر کر دی ہے لیکن اس کا مفصل مطالعہ کرنے کے بعد بھی انہیں علم نہیں ہو گا کہ سوالاکھ شہداء کا لہو اور ہزاروں بیوائوں اور یتیموں کے نوحے ان کے دروازے پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ انٹونیو گویتریسنے اقوام متحدہ کو اپنے گھر کی باندی بنائے رکھا ہے ۔ جون 2005ء سے دسمبر 2015ئتک اس ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین رہے ۔ یہ کمیشن 10ہزار اہلکاروں پر مشتمل تھا اور 126ممالک میں قائم اس کے دفاتر 60لاکھ مہاجرین کو خدمات مہیا کرتے تھے ۔ ان راندۂ عالم بے درو بے صدا انسانوں میں فلسطین اور کشمیر سے مظلوم بھی تھے ۔ ہائی کمیشن کا دائرہ کار بے وطن ، داخلی طور پر بے گھر ، پناہ گزین اور اپنے گھروں کو واپسی اختیار کرنے والے
انسانوں پر محیط تھا ۔ ان 10 برسوں میں عالم اسلام کے متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا جبکہ ہائی کمشنر بڑی شان سے اپنا عرصہ کار مکمل کرکے سیکریٹری جنرل مقرر ہونے کی تیاریوں میں لگ گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1999ء میں مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی مداخلت کی گویتریس نے پرزور حمایت کی تھی ، تو پھر کشمیر و فلسطین ؟؟کاش 2اکتوبر کو نئی دہلی میں اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر کا سنگ بنیاد پر انٹو نیو گویتریس یہ عبارت لکھواتے ’’ ہند کی اقلیتوں اور کشمیری حریت پسندوں کے نام‘‘۔
لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل میں اتنا دم کہاں؟نوکری بھی تو کرنی ہے اور انسانی خون کیا!اس کا تو کام ہی بہنا ہے !!