بیرونی امداد کی ضرورت کیا ہے؟
خالد السلیمان ۔ عکاظ
شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات نے دنیا کے مختلف علاقوں میں متاثرہ معاشروں کو جو امداد پیش کی تھی ،میں نے ٹویٹر کے اپنے اکاﺅنٹ پر اسکی تفصیلات دیدی تھیں۔ میں نے بتایا تھا کہ مرکز نے 2ارب ڈالر کے لگ بھگ امداد دی ہے۔ یہ اعدادوشمار دیکھ کر بعض لوگوں نے عجیب و غریب تبصرے کئے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مذکورہ امداد کے مستحق ہمارے تعلیمی منصوبے اور صحت ادارے نہیں ہیں؟ترجیحی بنیادوںپر ہمارے ادارے مذکورہ امداد کے زیادہ مستحق ہیں۔آپ کا کیاخیال ہے؟
درحقیقت اس قسم کا سوال سعودی عرب ہی نہیں دنیا کے ان بیشتر ممالک میں کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے جو خارجی ممالک کو امداد دیتے رہتے ہیں۔عام طور پر امداد دینے والے بڑے ممالک ہیں۔ یہ ممالک بین الاقوامی پالیسیوں کی تقویت اور عالمی سطح پر اپنے اسٹراٹیجک مفادات کے تحفظ کیلئے امداد دیتے ہیں۔جب تک کوئی ملک امداد اور عطیات پیش نہیں کرتا اس وقت تک دیگر ممالک میں انہیں سیاسی اثر و نفوذ حاصل نہیں ہوتا۔ مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کرکے بھی اقتصادی اثر و نفوذ برقرار رکھا جاتا ہے۔
امریکہ نے 2015ءکے دوران 31ارب ڈالر، برطانیہ نے 18ارب ڈالر اور جرمنی نے 17ارب ڈالر خارجی امداد میں صرف کئے۔ جب امریکی حکومت پر خارجی امداد کم کرنے کے حوالے سے شور اور ہنگامہ برپا کیا گیا تو ہنگامہ کرنے والوں کو انتباہ دیا گیا کہ اگر خارجی امداد میں تخفیف کی گئی تو ایسی صورت میں عالمی سطح پر امریکہ کا اثر و نفوذ ختم ہوجائیگا۔
سعودی حکومت نے گزشتہ 10برسو ںکے دوران تعلیم کے شعبے پر 1.2ٹریلین ریال اور گزشتہ 8برسوں کے دوران صحت کے شعبے پر 162ارب ریال خرچ کئے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب نے داخلی ، ترقیاتی منصوبوںپر جو کچھ خرچ کیا ہے اسکے مقابلے میں سعودی عرب کی خارجی امداد والی رقم سمندر میں قطرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خارجی امداد مختلف ممالک کی خارجہ پالیسی اور بیرونی مفادات کی تقویت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اسکے بغیر چارہ کار نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭