گورنر مکہ مکرمہ اور خادم حرمین شریفین کے مشیر خاص شہزادہ خالد الفیصل نے کہا ہے کہ بعض عناصر نے سعودی عرب کو بدنام کرنے کی کوشش کی مگر میدان عرفات میں 18لاکھ مسلمانوں نے دنیا کے سامنے حقیقت واضح کردی کہ سعودی عرب حرمین شریفین اور حجاج کی خدمت کے لئے کس قدر کوشاں ہے۔مناسک حج ادا کرنے کے بعد بیت اللہ شریف کے گرد طواف کرنے والے ضیوف الرحمن اسلام اور مسلمانوں کے نمائندہ ہیں۔یہ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔یہاں کسی قسم کا تفرقہ نہیں۔سعودی عرب مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر تمام حجاج کی خدمت کرتا ہے۔آئندہ برس ایرانی حکومت نے اگر حجاج بھیجے تو انہیں گزشتہ برسوں کی طرح خوش آمدید کیا جائے گا ۔ جو عناصر ہمارے خلاف سازشیں کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سعودی عرب ترنوالہ نہیں۔ہم اپنے ملک اور مقدس مقامات کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت ہے۔ یہی وہ اسلام ہے جسے ہم جانتے ہیں۔حج خدمات کو پرائیویٹ شعبے کے حوالے کرنے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے گورنر مکہ نے کہا کہ حج اور سیاحت میں فرق ہے۔ یہ مقدس سفر ہے جس میںمشقت برداشت کرنا ضروری ہے۔ حکومت اس ضمن میں تمام سہولتیں فراہم کررہی ہے مگر اس کے باوجود حجاج کو مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی مشقت باعث اجر و ثواب ہے۔انہوں نے کہا کہ حج ضوابط کی پابندی کروانا تمام حجاج کے مفاد میں ہے۔اگر ہم نے ایرانی حجاج کو ان کی خواہش کے مطابق چھوڑ دیا تو دیگر ممالک کے حجاج کو پابند نہیں کیا جاسکتا۔اگر ایسا ہوا تو حج سیاسی مقاصد کے حصول کا اجتماع بن جائے گا۔گورنر مکہ مکرمہ نے کہا کہ امسال حج منصوبے کے نفاذ کے لئے 3لاکھ سے زیادہ اہلکاروں نے حصہ لیا۔ 7لاکھ سے زیادہ معیاری غذائی پیکٹ حجاج کو فراہم کئے گئے۔3لاکھ 48ہزار حاجیوں نے ٹرین سروس سے استفادہ کیا۔ 27سے زیادہ مریضوں کی اوپن ہارٹ سرجری کی گئی۔وزارت صحت نے 296مریضوں کو طبی نگرانی میں حج کروایا۔ بدھ 12ذوالحجہ کو 10لاکھ کے قریب حجاج کرام رمی سے فارغ ہوکر منیٰ سے رخصت ہوگئے۔ غیرقانونی حج کے انسداد کے لئے متعلقہ اداروں کی کوششیں قابل قدر ہیں۔امسال غیرقانونی حجاج کی تعداد میں ریکارڈ کمی ہوئی۔ہم امید رکھتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں غیرقانونی حجاج کی شرح صفر ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ اس میں شد ت اور انتہاپسندی کی گنجائش نہیں۔ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں سے ہے جسے سب سے پہلے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردی کے انسداد کے لئے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی دعوت دینے والا سب سے پہلا ملک سعودی عرب ہی ہے۔شہزادہ خالد الفیصل نے کہا کہ سعودی عرب کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا لہذا ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ کوئی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے تاہم کوئی برادر ملک کسی بھی معاملے میں ہم سے مدد طلب کرتا ہے تو ہم آگے بڑھ کر اس کی مدد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔