Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025

صدارتی انتخاب، 3امیدوار، کون کتنے پانی میں؟

ڈاکٹر علوی کی پوزیشن بہت مضبوط، انہی کے  مقدر کا ستارہ چمکے گا، تجزیہ
کراچی (صلاح الدین حیدر) آپ آج صبح، یعنی 4ستمبر کو یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ بے تابی سی ہوگی کہ آخر صدارتی کرسی پر کون بیٹھے گا  تین امیدوار میدان میں ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی ، پیپلز پارٹی کے بیرسٹر ،سینیٹر اعتزاز احسن یا متحدہ مجلس عمل کے نامزکردہ مولانا فضل الرحمان۔ظاہر ہے کہ ان کے بارے میں کون کتنے پانی میں ، جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، بلکہ ہر شخص، مرد، عورت، بچے ، بوڑھے ، نوجوان، سب ہی نتائج کے بے قراری سے منتظر رہیں گے۔  تو چلئے تینوں کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ خود کیسے انسان ہیں ، سیاسی میدان میں کس حد تک کامیاب رہے، لوگ ان کے بارے  میں کیا رائے رکھتے ہیں۔کیا وہ اتنے بڑے منصب کے اہل بھی ہیں کہ نہیں۔ اعداد و شمار کا سہارا لیا جائے تو ڈاکٹر علوی کی پوزیشن بہت مضبوط ہے، وجوہات تو کئی گنائی جاسکتی ہیں، لیکن کون کتنے ووٹ لے سکتاہے، یہی بات سب سے اہم ہے اور نتائج کے آنے تک رہے گی۔ صدارت کے انتخابات میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران کا ایک ووٹ ہوتاہے، لیکن چونکہ صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی ووٹنگ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، اس لیے ان کا حساب لگانا بھی ضروری ہے، پی ٹی آئی کے اپنے 251 ووٹ ہیں، ان کے حلیف کے پاس 80ووٹ ہیں، متحدہ مجلس عمل کے اپنے 40ووٹ ہیں، محمود خان اچکزئی کی پشتو نخوا ملی پارٹی کے 14، عوامی نیشنل پارٹی کے 10، اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 144، سب ملا کر 208بنتے ہیں، پیپلز پارٹی کی تو بہت ہی کمزور پوزیشن ہے، پی پی پی کے اپنا 116ووٹ ، اور نیشنل پارٹی کے صرف5ووٹ ، گویا کل ملا کر 121۔   آزاد ممبران کی کل تعداد22ہے ،یہ کس طرف جاتے ہیں وہی دیکھنا ہوگا، پی ٹی آئی، اور پی ایم ایل (این) دونوںہی دعوے کرتی ہیں کہ زیادہ تر آزاد ممبران ان کی حمایت کا وعدہ کرچکے ہیں ،لیکن تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آزاد ممبرا ن پارلیمان اکثر و بیشتر حکومت وقت کا ساتھ دینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، لیکن ڈاکٹر عارف علوی کی پوزیشن بہت مستحکم ہے اور ان کی کامیابی اب جب کہ اپوزیشن انتشار کا شکار ہے ، کے امکانات بہتر روشن ہیں، چلتے چلتے ان تین حضرات کی زندگی اور سیاسی جدو جہد کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان لیتے ہیں۔ 29جولائی 1949کو پیدا ہونے والے عارف رحمان علوی ایک بہت تجربہ کار دندان ساز ہیں۔یہ پیشہ انہیں وارثت میں ملا ہے، وہ 2013 اور 2018میں دونوں  مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔بین الاقوامی طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی سیاست کا شوق تھا اورلاہور کے monmorency collegeمیں بھی اسٹوڈنٹ یونین کے عہدے دار منتخب ہوئے۔ پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن اور ایشیا پیسفک ، ڈینٹل فیڈریشن کے صدر بھی رہے، تحریک انصاف سے شروع سے ہی وابستہ رہے ،1996میں ، پی ٹی آئی کے ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر اور 1997میں پارٹی کے صوبہ سندھ کے صدر بنے ۔ 2001میں ، اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائی۔ انتہائی سادہ زندگی گزارنے والے عارف علوی 18اگست کو کرسیٔ صدارت کے امید وار نامزد ہوئے، اور کل شاید ان کے مقدر کا ستار ہ عروج پر پہنچ جائے۔ چوہدری اعتزازاحسن 27ستمبر کو 1945میں مری کے پرفضا مقام پر پیدا ہوئے، بے نظیر بھٹو، کے دور حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔ آج کل دوسری مرتبہ ایوان بالا کے ممبر ہیں، پیشے کے لحاظ سے وکیل وہ بھی مانے ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور، ڈاؤننگ کالج، کیمبرج  سے تعلیم یافتہ اعتراز احسن پنجاب کے وزیر پلاننگ اور ڈیولپمنٹ بھی رہے ،آپ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جیسے معروف عہدے پر بھی منتخب ہوئے، شروع سے ہی بھٹو کے شیدائی تھے، اور ہمیشہ ہی پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے ۔   مولانا فضل الرحمن کو سیاست ورثے میں ملی، آپ ممتاز عالم دین مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے، اور ان کی وفات کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر براجمان ہوئے، 1980میں جے یو آئی ٹکڑوں میں بٹ گئی اور مولانا اپنے گروپ کے صدر بن گئے۔   65سالہ مولانا فضل الرحمان 1988سے 6مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، بلکہ  2002میں متحدہ مجلس عمل کی طرف سے حکومت بھی اس وقت کے شمال مغربی صوبہ جو کہ اب خیبر پختونخوا ہے میں  اہم عہدے پر فائز رہے ۔  وزیر اعظم کا انتخاب ہارنے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر بنے۔ اس سال25 جولائی کو ہونیو الے انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہارے، لیکن اب صدارت کے امید وار ہیں ان کی تمام کوششیں کہ کسی طرح آصف زرداری اعترازاحسن کو دستبردار کروادیں،کامیاب نہیں ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ شہباز شریف کی پارٹی اعتراز احسن کو ووٹ نہیں دیتی، اس لیے اس نے مولانا فضل الرحمان کو میدان میں اتارا، لیکن مولانا بضد ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب ضرور لڑیں گے۔ 
 
 

شیئر: