سلامتی کونسل کے فیصلے آزمائش کے سانچے پر
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن سے متعلق اہم فیصلے جاری کئے۔ البتہ ان پر عمل درآمد کا کوئی طریقہ کار مقرر نہیں کیا۔کھلم کھلا انکی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ اس انداز سے ہوئیں گویا یمن سے متعلق سلامتی کونسل نے کوئی قرارداد ہی جاری نہیں کی تھی۔ حوثیوں اور انکے پس پشت ایرانیوں کی سرگرمیوں کے باعث یمن کا بحران دھماکہ خیز ہوگیا۔ حوثیوں نے ایران کی شہ پر بین الاقوامی قراردادوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
اگر اعلیٰ ترین بین الاقوامی اتھارٹی فیصلے جاری کرے اور ان پر عمل درآمد کا کوئی طریقہ کار نہ اپنا ئے تو ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کی قراردادیں جاری کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ قرارداد کے اجراءکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو۔ قرارداد اس لئے پاس کی جاتی ہے کہ بحران کے خاتمے کیلئے اس قرارداد کو فی الفور نافذ کیا جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سلامتی کونسل کے دائمی رکن ممالک کی مرضی پر سب کچھ موقوف ہے۔ وہ جس فیصلے پر فوری عمل درآمد چاہتے ہیں ہوجاتا ہے اور جسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں اسے سرد خانے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یمنی بحران غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس کے اثرات خطے سے آگے بڑھ کر عالمی برادری کو اپنی لپیٹ میں لینے لگے ہیں۔ باب المندب میں عالمی جہاز رانی مخدوش ہوگئی ہے۔ اسکے باوجود بین ا لاقوامی برادری کوئی مناسب اقدام اس حوالے سے نہیں کررہی ہے۔ کم از کم یہ فرض تو بنتا ہی تھا کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں کو دن دہاڑے پامال ہوتے ہوئے نہ دیکھے۔
سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں عام طور پر واجب النفاذہوتی ہیں۔ البتہ یمنی بحران اس سے مستثنیٰ لگتا ہے۔ یمنی بحران سے متعلق قراردادوں کی تعمیل نہ کرنے سے منفی تاثر پاس ہوا ہے۔ یہ تاثر نہ صرف یہ کہ حوثیوں اور ایرانیوں کا ہے بلکہ اب ایک بات یہ عام سی ہوگئی ہے کہ سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اس کوئی سیاسی وزن تک نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭