Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
بدھ ، 18 جون ، 2025 | Wednesday , June   18, 2025
بدھ ، 18 جون ، 2025 | Wednesday , June   18, 2025

وزارت خارجہ میں تبدیلی کے آثار

  کراچی (صلاح الدین حیدر)نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی پاکستان نے خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا شروع کردیا ۔ بہت جلد کئی ایک ملکوں میں پاکستانی سفیروں اور دوسرے اہم اہلکاروں کے تبادلے کئے جانے کا قوی امکان نظر آتاہے۔ پاکستان کے ممکنہ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ ان کی حکومت نئی کارآمد خارجہ پالیسی پر عمل کرے گی۔خبریں ابھی سے گردش کررہی ہیں کہ امر یکہ میں حال ہی میں بھیجے جانے والے سفیر علی جہانگیر صدیقی تبادلے کے راڈار پر ہیں۔علی جہانگیر صدیقی بینکر اور اسٹاک کے نامور بروکر جہانگیر صدیقی کے صاحبز ادے ہیں لیکن نا تجربہ کار نوجوان جسے سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں۔ان کا انتخاب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے آخری ایا م میں کیا تھا، وجہ اس کی شاید یہ تھی کہ علی جہانگیر صدیقی ان کے مشیر خاص ہونے کے علاوہ خاقان عباس کی نجی ایئر بلیو کے شیئر زہولڈر بھی تھے۔ان کی ترقی پر بہت زیادہ تنقید اس لئے بھی ہوئی کہ ان کے خلاف نیب کے درجنوں کیسز زیر تفتیش ہیں۔ کئی ایک لوگوں کے نام گردش میںہیں جن میں ملیحہ لودھی شامل ہیں لیکن وہ عمران کے منتخب ہوتے ہی اسلام آباد میں براجمان ہیں۔ عمران سے ملاقات کی اور انہیں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی حالات پر بریفینگ بھی دی۔ملیحہ کسی زمانے میں صحافی بھی رہ چکی ہیں، بعدمیں انہیں بے نظیر نے واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں وہ واشنگٹن اور انگلینڈ میں بھی پاکستانی سفیر رہیں،تقریباً دو سال سے وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ شنید یہی ہے کہ وہ دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کردی جائےں گی۔ عمران اگلے مہینے یعنی ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے نیو یارک جائیں گے جہاں ان کا بہت بھاری ایجنڈا ہے، وہ ہندوستانی پرائم منسٹر نریندر مودی، روس کے صدر ولاد ی میر پوٹین ، ترکی کے صدر طیب اردگان،ایرا ن کے صدر حسن روحانی اور دنیا کے کئی بڑے ممالک کے سربراہان سے ملاقات کریں گے، تاکہ پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھایا جاسکے ۔نواز شریف کے زمانے میں خارجہ پالیسی بالکل ہی نظر انداز رہی ، 4سال تک ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا۔شاہد خاقان کے زمانے میں خواجہ آصف اس عہدے پر فائز ہوئے لیکن صرف ایک دو ممالک کے کوئی خاص دورے نہیں کرسکے۔نتیجتاً پاکستان اقوام عالم میں تنہائی کا شکار ہوگیا اور اس کی بات کوئی سننے والا نہیں تھا۔ ہند نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اس سے برا حال قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کا تھا جس کے سربراہ جمعیت ِ علماءاسلام کے صدر مولانا فضل رحمان نے کشمیر جیسے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہیں دی ،حالانکہ پچھلے دو سال سے وادی کشمیر آزادی کی جو تحریک چل رہی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقعہ تھا لیکن پاکستان نے نا اہلی کی وجہ سے یہ سنہری موقع ضائع کردیا ۔ اب عمران نے اپنے ساتھیوں کو ٹاسک دے دیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے کام کی مانیٹرنگ کی جائے گی، جو امتحان میں پورا اترا وہی عہدے پر برقرار رہے گا، ورنہ چھٹی، امید تو ہے کہ اگر پاکستان نے صدق دل سے خارجہ پالیسی کی آزمائش کی تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیاپاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھے اور ہندوستان جس نے خطے میں امر یکہ کی مدد سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے، چیک ہوسکے۔
 

شیئر: