کرپشن کے خلاف جہاد ،بڑے بڑے لپیٹ میں
کراچی (صلاح الدین حیدر )کرپشن کہیں ،بد عنوانی، یا ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے طریقے،بات ایک ہی ہے ، یوں تو دنیا میں شایدہی کوئی ایسا ملک ہو جو اس سے مبرا ہو، پاکستان میں تو یہ ناسور کی طرح ہماری رگوں میں سرا یت کرچکی ہے، اب تو صحیح کام کرنے کے لئے بھی رشوت ضرو ری ہے۔چیف جسٹس نے صحےح کہا کہ بغیر کرپشن ختم کیے قوم کا مقدر سنبھل نہیں سکتا۔ آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے کا مقصد ہی پیسہ کمانا ہے،قومی خدمت تو درکنار ،بھوکے ،ننگوں تک کی پرواہ نہیں ، بس ارباب اقتدار یا اسمبلیوں میں آنے والے مرد و خواتین کا دین ایمان ، پیسہ بنانا ہوتاہے، اس میں سب ہی شامل ہیں۔کیا نواز شریف ، شہباز شریف،حمزہ شریف، آصف زرداری ، فریال تالپور، اور پتہ نہیں کون کون، فہرست اس قدر لمبی،چوڑی ہے کہ اچٹتی ہوئی نظر ڈالنا بھی محال ہے۔عدالت عالیہ سے لے کر عدالت عظمیٰ تک، افواج پاکستان، سب ہی اب ایک ہو چکے ہیںکہ کسی طرح بھی اس خطرناک کھیل کا خاتمہ ضروری ہے۔ورنہ پاکستان کا حال شاید سوڈان،صومالیہ سے بھی برا ہو،جہاں ننگے ،بھوکے افراد سڑکوں پر عام نظر آتے ہیں، قدرت کا قانون ہے کہ مرض جب حد سے بڑ ھ جائے تو وہ خود بخود حرکت میں آجاتی ہے، یہی پاکستان کے ساتھ ہوا جو کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 184ممالک میں137ویں نمبر پر ہے،کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے۔ اس کی بھلائی کے لئے شب و روز محنت کی ضرورت ہے۔اندازہ لگائیں کہ حبیب بینک جیسا بڑا ادارہ امر یکہ میں مجرم ٹھہرا اور اس کا لائسنس منسوخ کرکے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اب نہ تو پی آئی اے امریکہ جاتی ہے، نا ہی حبیب بینک ہے جو امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے درد کا درماں بن سکے۔ 2007سے نواز شریف نے حبیب بینک کے ذریعے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ڈالرپاکستان منتقل کرائے، اگر صحےح طور پر جوڑا جائے تو یہ رقم ”بلین آف ڈالر “میں بنتی ہے۔ پاکستانی روپوں میں کھربوں کی۔ نواز شریف سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی مجھے کیوں نکالا کانعرہ لگا لگا کر تھک ہار کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ ان کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں شاید 8 اگست کو سنی جائے گی۔ ضمانت ہوگی، مشکل ہی نظر آتاہے۔ان کےخلاف قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے نے جو ملک کا سب سے بڑا اور طاقتور جرائم کا تحقیقاتی ادارہ ہے ، نے طویل فہرست ہائی کورٹ میں جمع کرادی ۔نتیجہ کیا نکلتاہے یہ جج صاحبان کی صوابدیدہے۔آصف زرداری آج ناجائز طور پر کمائی گئی دولت کا انبار لئے آزادنہ گھوم رہے ہیں۔کہتے ہیں مجھ پر تو کوئی الزام نہیں۔11سال جیل بھگت چکا ہوں، بہت سارے کیس میں با عزت بّری ہو گیا۔ کیا ان کے خلاف واقعی صحیح معنوں میں کیس چلے تھے یا نظر کا دھوکہ تھا، دنیا کو دکھانے کے لئےجعلی کاغذات عدالت میں پیش کئے گئے ۔چونکہ وہ خود اور اہلیہ بے نظیر اقتدار میں تھیں تو جو اس وقت کی عدالت کاکیا حال تھا،کسی سے چھپا نہیں تھا، کیس صحیح طور پر پیش کیے گئے۔ گواہاں سچے تھے، یا اِدھر اُدھر سے پکڑ کر لیے گئے تھے، یہ بھی سوال اہم ہے۔ قصہ مختصر ، احتساب کے ادارے جیسے عرف عام میں نیب کہا جاتاہے ، نے نئے سرے سے کیسز اکٹھے کرکے عدالت کے سامنے پیش کردیئے ہیںکہ ان کے خلاف دنیا بھر میں نامی، بے نامی جائیداد ، بینک اکاونٹس ، دولت کے انبار کے خلاف چلائے جائیں۔ زرداری قانون کی گرفت میں آتے ہیں کہ نہیں۔قدرت کا نظام کبھی نہیں بدلتا۔ یہی حال کچھ ہمشیرہ فریال تالپور کا ہے جن کی دولت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے، ڈیفنس ہاﺅسنگ اسٹریٹ کی 28اسٹریٹ پر ان کا گھر ہے، قرب و جوار میں پولیس کے 40سے 50اہلکار ، درجنوں پولیس کی گاڑیاں گھر کے گرد پہرے پر مامور تھیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ان میں بہت بڑی حد تک کمی آگئی ہے، اسلام آباد ، کراچی اور کئی جگہ ان کے شاپنگ مال اور پلازہ بن چکے ہیں، یا زیر تعمیر ہیں،۔کراچی میں صدر کے علاقے میں کراچی کلب کے برابر میں ایک اور شاپنگ مال بن رہاہے، جس کے بارے میں اب یہ کہا جاتاہے کہ وہ زمینوں کی خرید و فروخت کے سب سے بڑے ڈیلر ملک ریاض کو بیچ دیا گیا ۔ نیب نے 15لاکھ سے زیادہ تنخواہ پانے والے تمام بڑے بڑے افسران کی فہرست بناکر کیسز تیار کر لئے کہ آخر ان کے پاس اتنی دولت کہاںسے آئی، دو ایک شہباز شریف کے منظور نظر افسران فواد حسن فواد جو نواز شریف کے پرسنل سیکریٹری بھی رہ چکے تھے۔ آشیانہ ہاوسنگ اسکیم اور دانش کدہ اسکول کے خالق اور اس کے ذریعے دولت اکٹھا کرنے والے احد چیمہ بھی سزا بھکت رہے ہیں۔ سابق ریلوے منسٹر خواجہ سعدرفیق اور ان کے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق بھی پیراگون کمپنی کے تحت ناجائز زمین الاٹ کرنے یا قبضہ کرنے کی پاداش میں نیب میں طلب کرلئے گئے۔ نیب کے چیئر مین جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، کیسا بھی دباﺅ ڈالا جائے اپنے مقصد سے نہیں ہٹیں گے۔ جلد ہی سب خطرے میں ہوںگے۔ ایک اطلاع کے مطابق شہباز شریف نے جو لمبے چوڑے منصوبے کروڑوں ڈالرز ترکی سے حاصل کرکے لاہور اسلام آباد میں میٹرو چلائی یا لاہو رمیں اورنج لائن کی تکمیل میں آگے آگے رہے، اس میں لمبے چوڑے کمیشن سب ترکی میں ہی جمع کروا دیئے گئے۔ اب نیب یا عدالت عظمیٰ کیا کرتی ہے۔اس کا انتظار ہے، بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ فضا ءبدل چکی ہے، اب تو چارہ گر اں کچھ نا کچھ تو ہو کر رہے گا۔