جن کا سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوتے
قبولِ اسلام سے قبل جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی تھی کہ مصعب یہاں سے گزر ا ہے
* * * ڈاکٹر محمد اسلم فہیم ۔ لاہور* * *
جنگ ختم ہو چکی تھی۔ مسلمان فتح سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ قیدیوں کو گرفتار کر کے ان کی مشکیں کسی جارہی تھیں کہ ان کا گزراپنے بھائی کے پاس سے ہوا جو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ایک مسلمان انہیں باندھ رہا تھا۔ اسے مخاطب کرکے فرمایا:دیکھو!اسے اچھی طرح باندھنا۔ اس کی ماں بڑی مالدارعورت ہے ۔اس کی رہائی کے بدلے میں اچھی خاصی دولت ملے گی۔ جب بھائی نے سنا تو کہنے لگا :تم کیسے بھائی ہو جو ایسی باتیں کر رہے ہو۔ فرمایا میرے بھائی تم نہیں بلکہ وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے۔
اپنے بھائی سے اس انداز میں بات کرنے والی یہ عظیم شخصیت کون ہیں آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
مکے میں کوئی شخص ان سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا۔ ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے تھے۔ امراء کے زیر استعمال حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امراء کے لئے مخصوص تھا وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا تھا۔ وہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی تھی کہ مصعب بن عمیریہاں سے گزر گیا ہے۔وہ جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں مصعب کو اتنی نعمتوں سے نوازا تھا وہاں ان کے دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا جس پر توحید کا ایک عکس پڑنے کی دیر تھی اور پھر توحید کا جھنڈا اس انداز میں تھاما کہ اس نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگ گئے اور اب حال یہ تھا کہ نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش وعشرت سے بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا، یہ وہ مقصد تھا جسے جلو ہ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواکر دیا تھا۔
جب سیدنا مصعب بن عمیرؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم ِتوحید‘‘ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر انہوں نے جناب رسالت مآب کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی، ہجرت کے مصائب نے ان کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا۔حبشہ میں کچھ ہی دنوں بعد اہلِ مکہ کی اسلام قبول کرنے کی افواہ سن کر وہ وطن کو واپس لوٹ آئے۔
اسی اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مکہ سے نکل کریثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور وہاں کا ایک معزز طبقہ دائر ۂ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔وہاں کے مسلمانوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔ سرکارِ دوعالم نے اس درخواست کے جواب میں سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا اور ضروری ہدایات دے کر انہیں یثرب کی طرف روانہ کر دیا جہاں انہوں نے تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ وہاں کی فضاء کو اسلام کے لئے ہموار کیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی دعوت وتحریک اور محنت کے نتیجے میں نبی کریم نے مکہ سے ہجرت کر کے یثرب کو اپنا مسکن بنایا جس کی بناء پریثرب کو مدینۃ النبی کا بلند مقام عطا ہوا۔
2 ہجری کو بدر کا میدانِ کارِزارگرم ہوا تو میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی سیدنا مصعبؓ اس شان سے نکلے کہ مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا، ان کے بھائی کی گرفتاری کا معاملہ اسی غزوۂ بدر میں پیش آیا تھا۔
بدر کے بعد احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھرعَلمِ جہاد آپؓ ہی کے ہاتھ میں تھا اور اس عَلم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۃ نے تلوار کے وار سے آپ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو فوراً بائیں ہاتھ میں عَلم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر اٰل عمران کی یہ آیت جاری تھی۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُول، قَد خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلْ۔۔۔۔
’’(حضرت)محمد() صرف رسول ہی ہیں،اُن سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں۔‘‘(آل عمران144)۔
اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی سیدنا ابو الدوم بن عمیرؓ آگے بڑھے اور عَلم کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔
سیدنامصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبولِ اسلام سے قبل جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی تھی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے۔وہ جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی۔وہی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی۔ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا ۔بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ سر ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی۔
آنحضرت حضرت مصعبؓ کی لاش کے قریب تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرمائی،ترجمہ:
’’اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا۔‘‘
پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے،بے شک اللہ کا رسول()گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہو گے۔‘‘
رضی اللہ عنھم ورضو عنہ۔
’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے…‘‘