Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025

پاکستانی الیکشن، مشکل توقعات

ڈاکٹر عبداللہ المدنی ۔ الاقتصادیہ
ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کا اثر و نفوذ افغانستان میں گھٹتا چلا جارہا ہے او رعلاقے کے 2کھلاڑیوں کا اثر و نفوذ وہاں بڑھ رہا ہے ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مسلسل زبردست دباﺅ ڈال کر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان داخلی ماحول کو دہشتگردوں اور منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک سے پاک کرے۔ پاکستان پارلیمانی انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہوا ہے۔ یہ انتخابات طوفانی نوعیت کے ہیں ۔ ان کے نتائج کے بارے میں قیاس آرائی مشکل ہے۔ پاکستان کے انتخابات پر ریاست کے اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا فقرہ بھی چست ہورہا ہے ۔
25جولائی کو پاکستانی ووٹرز نئے ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب کیلئے انتخابی مراکز کا رخ کریںگے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 342ہے۔ بڑی پارٹیاں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو جتانے کیلئے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہوئی ہیں۔ ان میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نوا ز شریف کے بھائی شہباز شریف کے زیر قیادت مسلم لیگ (ن) ہے۔ نواز شریف کو جولائی 2017ءکے دوران سپریم کورٹ نے گزشتہ انتخابات میں نامزدگی کے وقت اپنی کل دولت ظاہر نہ کرنے پر وزارت عظمیٰ کے منصب سے برطرف کردیا تھا۔ اب وہ اقتدار میں حصہ لینے کے حوالے سے نااہل قرار دیدیئے گئے ہیں۔ عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 10برس قید اور 10ملین ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنا رکھی ہے۔ غیر ملکی دورے سے پاکستان پہنچنے پر انہیںاور انکی ڈائنامک بیٹی اور ممکنہ جانشین مریم نواز کو گرفتار کرلیا گیا۔ نواز شریف ، مریم نواز اور شہباز شریف نے خاص طور پر پنجاب میں اپنے خاندان کے سیاسی اثر و نفوذ کو مضبوط بنانے کیلئے کام کیا ہے۔ زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ اسی صوبے سے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے 4صوبوں میں سب سے بڑا ہے اور پارلیمانی انتخابات میں فیصلہ کن پوزیشن کاد رجہ رکھتا ہے۔
جہاں تک دوسری بڑی حریف پارٹی کا تعلق ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ اس کے قائد کرکٹ کے سابق کھلاڑی عمران خان ہیں ۔ وہ اقتدار تک رسائی کی خاطر گزشتہ برسوں کے دوران ہر انتخابی معرکے میں حصہ لے چکے ہیں ۔انہوں نے نواز شریف کے خاندان کو خاص طور پر اپنا ہدف بنایا ہے۔ وہ خود کو پاکستانی جمہوریت کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ انکا کہناہے کہ وہ خاندانی اقتدار اور اثر و نفوذ رکھنے والی شخصیت کی جمہوریت سے ملک کو نجات دلائیں گے۔ انہوں نے نواز شریف، مسلم لیگ (ن) کے خلاف زبردست احتجاجی مہم بھی چلائی۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت کو سطحی قسم کی جمہوریت سے تعبیر کیا۔
پاکستانی انتخابات میں تیسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی ہے۔ اس کے اثر و نفوذ کا مرکزسندھ ہے۔ بھٹو خاندان کا وطن۔ رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پارلیمنٹ میں برائے نام ہی نمائندگی حاصل ہوگی۔ اسکے دو بنیادی سبب ہیں۔ اول تو یہ کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سحر آفریں شخصیات سے یہ جماعت محروم ہوگئی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اس پارٹی کے بہت سارے اہم رہنماﺅں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات بھی لگائے گئے جس سے بیرون سندھ اس پارٹی کی حیثیت مجروح ہوگئی ہے۔
انتخابات میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے کیلئے انتخابی محاذ قائم کیا ہے۔ پاکستان میں متحدہ ، نیشنل عوامی پارٹی جیسی جماعتیں بھی ہیں۔ اول الذکر اردو بولنے والے سب سے بڑے شہر کراچی اور ثانی الذکر خیبر پختونخوا میں سرگرم ہے۔
پاکستان کے حالات سے واقف کار اس امر پر متفق ہیں کہ کوئی بھی شخص پورے وثوق کیساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں کونسی پارٹی حاصل کریگی۔ رائے عامہ کے جائزے واضح کررہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو زیادہ نشستیں ملیں گی۔ اس میں پنجاب سے نسبت کا عنصر موثر ثابت ہوگا لیکن یہ پارٹی ان دنوں اندرونی تفرقہ و انتشار کے بدترین دورسے گزر رہی ہے۔ اس کے بہت سارے حامی اعلیٰ قیادت پر بدعنوانی کے الزامات کے تناظر میں پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ دسیوں رہنما اس سے علیحدگی کا اعلان کرچکے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کاتعلق ہے تو وہ ابلاغی جنگ اور غیر معمولی سرگرمیوں کے باعث کوئی بھی دھماکہ کرسکتے ہیں۔ وہ ملک کے چار صوبوں میں سے 3میں انتخابات لڑ رہے ہیں۔ کراچی کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے میں غیر معمولی طور پر سرگرم ہیں۔
غالباً پاکستانی انتخابات کے نتائج کی بابت پیشگوئی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ یہ بھی ہے کہ پاکستانی ووٹر اپنے نجی مفادات کو دیکھ کر کسی بھی وقت ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ ممکن ہے بہت سارے ووٹرز میڈیا کے اثر میں آکر ایسی جماعت کو ووٹ دیدیں جسے وہ ماضی کے انتخاب میں نظر انداز کرتے رہے ہوں۔ پاکستانی امور پر نظر رکھنے والے ہمارے رفیق کار عمر فاروق نے یکم جولائی 2018ءکو الشرق الاوسط میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز نے اپنی پارٹی کو چھوڑکر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیدیئے تھے او رپھر یہی ووٹرز 2013ءمیں پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ (ن ) کی جانب چلے گئے تھے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: