بسام فتینی ۔ مکہ
اعدادوشمار کی زبان کہہ رہی ہے کہ صرف ریاض شہر میں 15ہزار مساجد ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مساجد کی تعداد 14ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مکہ اخبار نے یکم شوال 1439ھ کو مساجد کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مملکت بھر میں مساجد کی مجموعی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اگر ان مساجد کے بجلی بل کا حساب بنایا جائے تو 8ارب ریال کے قریب ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ رقم بڑی ہے۔ وزارت اسلامی امور سبز عمارتوں کا نظریہ اپنا کر اسے کنٹرول کرسکتی ہے۔ اگر اعدادوشمار کی زبان میں یہ بات کہی جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ 15ملین بیرل تیل سے تیار ہونے والی بجلی مساجد پر خرچ ہورہی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور ماحول ، ثقافت اور فکر سے ہم آہنگ طریقہ کار کے تناظر میں ہمیں ہر وہ فارمولہ اور ہر وہ تصور اپنانا پڑیگا جس کی بدولت مہیا وسائل کے ذریعے اسمارٹ اہداف پورے ہوسکتے ہوں۔ یہاں میں وزارت اسلامی امور و دعوت و رہنمائی کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کیونکہ مملکت میں مساجد کے انتظامات کی ذمہ دار یہی وزارت ہے۔ توجہ میں یہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر تجویز دی ہے کہ وضو میں خرچ ہونے والے پانی کو قابل استعمال بنایا جائے۔ یہ پانی ہر مسجد کے آس پاس لگائے جانے والے پودوں کی آبپاشی میں خرچ کیا جائے۔ ماحولیاتی سائنسی طریقے سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس طرح ہم ایک تیر سے دو شکار کرسکیں گے۔ ایک تو یہ کہ روزانہ 5فرض نمازوں کے بعد خرچ ہونے والا پانی جو ضائع ہوجاتا ہے وہ قابل استعمال ہوجائیگا اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر مسجد اور جامع مسجد کے باہر شجر کاری بھی ہوجائیگی۔ ہمیں سخت موسم گرما ، موسم خزاں اور موسم بہار میں چلنے والی تیز ہواﺅں اور صحرائی یلغار کو دیکھتے ہوئے شجر کاری کی اشد ضرورت ہے۔
میری آرزو ہے کہ وزیر اسلامی امور ڈاکٹر عبداللطیف آل شیخ اس سعودی شہری سے رابطہ کریں جس نے انٹرنیٹ پر مذکورہ تجویز پیش کی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اس انسان کا نام نہیں جانتا۔ یہ ایسی تجویز ہے جس پر فوری عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر عمل درآمد کے بڑے فوائد ہونگے۔ ماحولیاتی امور کے ماہرین اس سلسلے میں معاون ثابت ہونگے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ ہماری مساجد سبز ہوں، ماحول دوست ہوں۔ یہاں خرچ ہونے والا پانی دوبارہ قابل استعمال ہو۔ اس پانی کی بدولت شجر کاری ہو۔ آخری بات جو عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ جب تک ہمیں اس انسان تک رسائی نہ حاصل ہوجائے جس نے مذکورہ تجویز انٹرنیٹ پر پیش کی تھی اس وقت تک وزارت اسلامی امور کے متعلقہ عہدیدار بجلی اور روشنی کی کفایت شعاری کے حوالے سے دیگر قابل عمل حل دریافت کرنے اور ان پر عمل کرنے کی بابت سنجیدگی سے غور کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭