Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 13 جون ، 2025 | Friday , June   13, 2025
جمعہ ، 13 جون ، 2025 | Friday , June   13, 2025

مبلغین بھی پیغمبروں کی طرح جزا اور سزا کا پیغام عام کریں، امام حرم

 مکہ مکرمہ.... مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح آل طالب نے مبلغین سے کہا ہے کہ وہ بھی پیغمبروں اور نبیوں کی طرح جزا اور سزا کا پیغام عام کریں۔ بشارت سنائیںاور گناہوں کے خمیازے سے ڈرائیں۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ آل طالب نے جمعہ کے خطبے میں سورة یوسف سے ملنے والے اسباق اور نکات اجاگر کئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی تھی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید ، قیامت کے عقیدے ، جزا و سزا ، نبوت و رسالت ، قرآن اور گناہگارو ںکی سزا بیان کی گئی ہے۔ امام حرم نے کہا کہ جو شخص اس سورة کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کرتا ہے اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سورة خفیہ دعوت کے ایام میں نازل ہوئی ہوگی۔ یہ مکہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ایک ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ پیغمبروں کا شیوہ اچھائیوں پر بشارت سنانا اور برائیوں کے سنگین نتائج سے ڈرانا رہا ہے۔ قیامت کے قیام تک پیغمبروں کے پیروں کاروں کا طریقہ کار بھی یہی رہیگا۔ کوئی بھی دین کا داعی ان دونوں میں سے کسی ایک پر اکتفا نہ کرے۔ ہر داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اچھے کاموں کے خوبصورت اثرات سے اہل ایمان کو واقف کرائے، انہیں بشارت سنائے اور برے کاموں کے سنگین نتائج سے ڈرائے، دھمکائے۔ آل طالب نے کہا کہ قرآن کریم نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ یہ آپ کی نبوت کی اہم ترین اور عظیم ترین نشانی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے سے قبل 40برس کا عرصہ اپنی قوم میں گزارا۔ قوم انہیں صادق اور امین کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔ کبھی بھی مکہ کے کسی شخص نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے صداقت سے سچ اور ایمانداری کے منافی کوئی چیز نہیںدیکھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں نوح، موسیٰ اور یونس علیہم السلام تین پیغمبروں کا ذکر کیا ہے۔ یہ سورة رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت کرنے کیلئے نازل کی گئی۔ آل طالب نے بتایا کہ انبیائے کرام اور پیغمبران اسلام علیہم الصلوة السلام کیلئے اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی رحم کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ عموماً انکی زندگی اور خصوصاً انکی رسالت کا دور اہل شرک کے ساتھ میل ملاپ اور بحث و مباحثے میں گزرا۔ پیغمبر اہل شرک کی مجلسوں میں جاتے ۔ انکے پروگراموں میں حصہ لیتے ان کی باتیں سنتے انہیں اپنی باتیں سناتے ۔انکی ٹیڑھی میڑھی باتوں پر صبر کرتے۔ انکی برائیاں دیکھ کر برداشت کا مظاہرہ کرتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر مسلموںکے تکلیف دہ رویوں کو دیکھ کر الجھن محسوس کرتے تو اللہ تعالیٰ انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتا کہ تمہیں ان کے طور طریقے دیکھ کر خود کو رنج و افسوس کرکے ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ پیغمبروں اور اب انکے بعد مبلغین کرام کا فرض ہے کہ وہ ہر حالت میں نصیحت اور دعوت کا کام کریں۔ صبر کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ ہر انسان استطاعت کے بقدر ہی ذمہ داری کی انجام دہی کا پابند ہے۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ دین حق کا سچا پیغام بہتر سے بہتر شکل میں پہنچانے کا اہتمام کرے۔ نصیحت قبول کرنا نہ کرنا یہ مدعو کا کام ہے،داعی کی ذمہ داری نہیں۔ داعی سے اس حوالے سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ عبدالباری الثبیتی نے جمعہ کا خطبہ اہل اسلام کے اصول اور اخلاقیات کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اہل اسلام منفرد اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ احسان کا بدلہ احسان سے دیتے ہیں۔ وہ اچھائی کا بدلہ زیادہ بڑی اچھائی سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام نے قرآن پاک میں اپنے پیروکاروں کو یہی درس دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس امر کا بھی حکم دیا ہے کہ جو لوگ تمہارے ساتھ اچھائی کا کام کریں ان کی اچھائی کو کبھی فراموش نہ کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفاداری کے بھی امام تھے۔ آپ نے ہمیں احسان کا صحیح تصور دیا۔ آپ نے بھلائی کرنے والے کی قدر و منزلت کی تعلیم دی۔ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی میں بھی انکی گرانقدر خدمات کو تسلیم کیا او ر انکی وفات کے بعد بھی انکی اچھائیوں کا ذکر خیر کرتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حضرت خدیجہ بنت خویلد کیلئے ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے رہتے۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرتے اور بتاتے رہتے تھے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں۔ اسلام نے اچھائی کرنے والوں کی قدرو منزلت پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی ہے۔ وفاداری اہل اسلام کا شیوہ ہے۔ اسلام نے والدین کیساتھ وفاداری کی تلقین کیلئے جو زبان استعمال کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک معجزاتی زبان ہے۔
 

شیئر: