ایک لٹر پٹرول پر40روپے ٹیکس ہے،سپریم کورٹ
اسلام آباد...سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات حکومت کی کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں۔اتوار کو چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل، ایم ڈی پی ایس او اور چیئرپرسن اوگرا عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ قیمتوں میں اضافے اور کمی کا فارمولا کیا ہے؟،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کے پیسہ کمانے کے لئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مڈل مین دونوں اطراف سے منافع اور کمیشن لیتا ہے۔اسے رکھا ہی اس لئے جاتا ہے تاکہ مارجن رکھیں۔ ہمیں باہر سے سستا پٹرول اور خام تیل چاہیے۔چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او سے پوچھا کہ آپ کا آئل سیکٹر میں کتنا تجربہ ہے؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ توانائی شعبے میں 3سال کا تجربہ ہے۔ نجی کمپنی اینگرو میں کام کیا ہے۔ 37 لاکھ روپے تنخواہ کا پیکج ہے چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بکواس ہے، اتنی بھاری تنخواہ پر بندے بھرتی کئے جاتے ہیں، کیا بیوروکریسی ختم ہو گئی تھی جو نجی شعبے سے بندہ لینا پڑا؟۔ سب کچھ ملا کر آپ کا پیکج 45 لاکھ تو ہوگا ۔ تنخواہ 22 گریڈ کے افسر سے کئی گنا زیادہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صارف کو ریلیف نہیں دیتے۔ پی ایس او کی 6 ماہ کی درآمدات کا آڈٹ کرا لیتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ شفاف ہونی چاہیے۔غیر ترقیاتی اخراجات صارف کو ادا کرنا پڑتے ہیں اور افسران کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔آڈٹ کے بعد عدالت دیکھ لے گی کہ ریاست نے جو ٹیکس لگائے ہیں وہ جائز ہیں کہ نہیں۔تعین کرنا ہے کہ درآمد دیانت داری سے ہورہی ہے یا نہیں؟۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک لٹرپٹرول خریدنے والے کو 40 روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت کی کمی کا فائدہ صارف کو دینے کی بجائے ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ ساری گیم خریداری کے موقع پر ہوتی ہے۔