بجلی بل کی نگرانی ناگزیر
جمعرات 5 جولائی 2018 3:00
سطام المقرن ۔ الوطن
سعودی بجلی کمپنی نے گزشتہ ہفتے بیان جاری کرکے بجلی بل میں اضافے کے اسباب کی نشاندہی کردی۔ کمپنی نے ایئرکنڈیشن کے بیجا استعمال کو بل میں اضافے کا بنیادی سبب قرار دیا۔ علاوہ ازیں بجلی بورڈ نے پورے وثوق سے یہ بات کہی کہ بجلی کمپنی نے جو بل جاری کئے ہیں درست ہیں۔ یہ تاکید مقامی شہریو ںکی جانب سے بجلی بل پر بے شمار اعتراضات اور شکایات کے جواب میں جاری کی گئی۔
بل سے متعلق بجلی کمپنی کے بیان اوربجلی بورڈ کی تاکید یہی رہی کہ بل بالکل ٹھیک ہے مگر مقامی شہریوں کی ان شکایات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جن میں انہوں نے یہ سوال اٹھایاتھا کہ معمول سے زیادہ بجلی کا خرچ بل میں کیونکر دکھادیا گیا۔ صارفین نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ جن ایام کا بجلی بل جاری کیا گیا ہے، وہ ان دنوں میں گھرو ںپر موجود ہی نہیں تھے۔ایسے عالم میں بجلی کے بیجا استعمال کی تو بات چھوڑدیں بجلی بنیادی طور پر خرچ ہی نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں بجلی کے نئے نرخنامے کی بابت بھی صارفین نے سوالات کئے جس کا نفاذ سال رواں کے شروع سے ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود بجلی کا بل معمول سے کئی گنا زیادہ جاری کیاگیا ہے۔بجلی بورڈ نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے بجلی کمپنی کے یہاں بلنگ کے صحیح ہونے کی تاکید کس طرح سے حاصل کی۔ یہ سوال اس لئے بھی کیا جارہا ہے کیونکہ صارفین کی شکایات اور سوشل میڈیا پر اعتراضات کے 24گھنٹے کے اندر بجلی بورڈ نے بجلی کمپنی کو بجلی بل کے درست ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
آخر بورڈ کے پاس ایسا کونسا طریقہ کار تھا جسے استعمال کرکے اس نے اتنی کم مد ت کے اندر صارفین کو جاری کردہ بجلی بلوں کے درست ہونے کا اطمینان حاصل کرلیا۔ یہ کارروائی اسلئے بھی ممکن معلوم نہیں ہوتی کیونکہ کمپنی نے ایک ماہ کے اندر یکبارگی 90لاکھ بل جاری کئے ہیں۔ ان پر نظر ثانی اتنی کم مدت کے اندر ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ چند نمونے لیکر اطمینان حاصل کیا گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا مکانات کے دورے کرکے حقیقت دریافت کی گئی؟میٹر کی ریڈنگ دیکھ کراطمینان حاصل کیاگیا؟
دراصل ہمارے سامنے بجلی کمپنی کی کارکردگی اور بل کے نظام سے متعلق اس کے طریقہ کار کی بابت نگرانی کا معاملہ ہے۔ بجلی کمپنی بل کے نظام کی بنیاد پر ہی مالیاتی رپورٹوں میں اپنی آمدنی کا اندراج کرتی ہے اور اس آمدنی کی بنیاد پر ہی منافع اور خسارے کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ چارٹر ڈ اکاﺅنٹینٹ کمپنیاں بجلی کمپنی کی مالیاتی رپورٹوں کا مطالعہ کرتی ہیں اوراس کی بناءپر ہی آمدنی کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں بجلی کے بل کے نظام کا بھی جائزہ لیتی ہیں۔ میں ایسا کہنے والے سے یہ کہناچاہوں گا کہ یہ درست ہے کہ اکاﺅنٹینٹ کمپنیاں حساب کتاب کا بغور جائزہ لیتی ہیں لیکن یہ بات پیش نظررہنی چاہئے کہ اکاﺅنٹینٹ کمپنیو ںکا کام کمپنی کے اندرونی کنٹرول سسٹم تک محدود ہوتا ہے۔چارٹر ڈ اکاﺅنٹینٹ کمپنی کے جاری کردہ بلز کو بنیاد بناکر ہی رپورٹ دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آمدنی کی فہرست میں کتنی رقم ریکارڈ کی گئی ہے اور کمپنی کے رجسٹروںمیں درج رقم سے تقابل کیا جاتا ہے۔ چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹ عام طور پر بجلی بل میں مذکور رقم کے صحیح اور غلط ہونے کی بابت کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ لوگ کمپنی کی مجلس انتظامیہ کے فیصلوں اور خطوط پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اگر ہم بجلی بل جوڑنے کے طریقہ کار پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ میٹر کی ریڈنگ لینے والا کسی ایک زمرے کے صارف کے 30روزہ بجلی استعمال کو دیکھتا ہے۔
بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر بجلی 6000کلو واٹ سے کم یا اسکے مساوی ہو تو ایسی صورت میں 18ہللہ سے ضرب دیا جائیگا اور 6ہزار سے زیادہ بجلی استعمال کی گئی ہو تو 30ہللہ سے ضرب دیاجائیگا تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ کار صرف اس صورت میں نافذ کیا جاتا ہے جبکہ بجلی کے استعمال کے دن 30ہوں۔ بل پر یہ تحریر ہوتا ہے۔ آخری مہینے کا جو بل آیا ہے اس میں استعمال کے دن کسی کے 25ہیں، کسی کے 27اورکسی کے 38روز ہیں۔
مثال کے طور پر اگرکسی نے 6700کلو واٹ بجلی 35دن استعمال کی ہو تو ٹیکس فیس کے بغیر اسکا بل 1110ریال بنے گا۔ اگر بجلی کے استعمال کے ایام 30ہونگے تو 18ہللہ سے ضرب دیا جائیگا۔ ایسی صورت میں بل بغیر فیس او رٹیکس کے 1026ریال بنے گا۔ ایسی صورت میں 84ریال کا فرق پیدا ہوجائیگا۔ سوال یہ ہے کہ ایام کی تعداد کے سلسلے میں یہ تضاد کیوں ہے؟ بل پر 30روز تحریر ہیں اور صورتحال مختلف ہے۔ صارفین کے زمروں میں نرخنامے کے نفاذ کے حوالے سے انصاف کہاں چلا گیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بجلی کمپنی کے بل کے نظام کا پیشہ ورانہ مراجع اور نظرثانی ناگزیر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭