انتخابات کے دوران صحافیوں پر دبائو
ایک ایسے ملک میں جہاںمیڈیا طویل جدو جہد کے بعد آزادیٔ اظہار کی جنگ بالآخر جیتنے میں کامیاب ہوگیا تھا ، ایک بار پھر سے دبائو کا شکار نظر آتے ہیں،یہ کہناکے ملٹری پھر سے خامو ش کردار ادا کررہی ہے تاکہ اس کے مطلب کی بات ہی کہی اور سنی جاسکے،فی الوقت تو الزام تراشی کے زمرے میں ہی آتاہے، لیکن جہاں دھواں شعلے اور راکھ توہوتی ہے ۔ان خدشات کی حقیقت کتنی ہے ، نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے، لیکن کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں صحافیوں کو بغیر قانونی چارہ جوئی کے غائب کردینا، مالی مسائل سے ان کے اخبارات یا ٹی وی اسٹیشن کو دو چار کرنا، ایسی باتیں ہیں جنہیں آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا۔اگر انگریزی کا سہارا لیا جائے تو اسے صحافی حضرات ’’Silent coup‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ان کے مطابق ملٹری تمام تر میڈیا کو مانیٹر کرنے میں لگی ہے، کہاں تک صحیح ہے اور کتنی مبالغہ آرائی ،یہ بغور دیکھنا پڑے گا، کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک ضروری ہے۔اگر ایک سے زیادہ میڈیا ہائوسز کو شکایات ہیں تو جوبھی ملٹری لائن پر چلنے سے انکار کرتاہے، ان سے آسانی سے ٹارکٹ کیا جارہاہے ۔ ان کے صحافی حضرات پر مالی دبائو بڑھا دیا جاتاہے اور انہیں خود سے ہی سنسر شپ پر مجبور کیا جارہاہے۔ بہرحال میں اپنی رائے محفوظ رکھنا چاہتاہوں کیونکہ مجھے کسی ایسے حادثے سے سابقہ نہیں پڑامگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ) PFUJ ( جو کہ تقریباً 5سال سے صحافیوں کی مقرر اور بااختیار تنظیم ہے کے صدر افضل بٹ کے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں کہ ہم نے پہلے کبھی ایسی سنسر شپ نہیں دیکھی جو آج کل دیکھنے میں آرہی ہے۔pfujکے الزامات کورد نہیں جاسکتا۔پاکستان کی تاریخ صحافیوں پر ناجائز ، غیر قانونی دبائو اور سنسر شپ سے بھری پڑی ہے، پھر بھی وہ تمام تر زیادتیوں کے باوجود ہمت نہیں ہارتے اور اپنی بات کہنے کی سزا بھی پاچکے ہیں،جو جیل اور کوڑوں تک پہنچتی ہے۔ اگر طاقتور ادارے کھل کر اعلان کردیں کہ کیا کچھ کہنا یا چھپانا ہے تو اور بات ہے لیکن پس پردہ انہیں امتحان سے دو چار کرنا کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے شرم کا مقام ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ،جنگ اور جیو ٹیلی وژن کئی دفعہ حکومتی دباؤ کا شکار رہاہے۔اس کی نشریات بند کردی گئیں، اشتہارات میں کٹوتی کر دی گئی اور کئی دوسرے مسائل سے دو چار ہونا پڑا۔ یہ باتیں تو ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان کے بارے میں شکوک و شبہات کی چنداں ضرورت نہیں ۔انگریزی زبان کے سب سے بڑے اخبار ڈان سے ایک شکایت ملی ہے کہ ا س کے سیل ایجنٹ کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اخبار بیچنے سے باز رہیں۔یہ اس کہانی کے بعد ہوا جب ڈا ن نے نوازشریف کے کہنے پر ملٹری کیخلاف ایک خبر چھاپی اور بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔دی نیو ز کے نمائندے وسیم عباسی کاکہنا ہے کہ دوسرے کئی حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ وہ غیر مری قوتوں کو سننے پر مجبور ہیں ۔بیرونی ملکوں کے صحافت کاروں نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے اور نجی گفتگو میں اظہار بھی کیا کہ پاکستان جیسے غیرمستحکم ملک میں استحصال ہے، جو کہ کسی بھی طرح ہونے والے انتخابات کے لیے موزوں نہیں۔فارسی نیوز ایجنسی( AFP)نے برملا ایک دو ڈپلومیٹ کو کوڈ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔