فہد عامر الاحمدی۔ الریاض
سوشل میڈیا کی خوبیوں میں سے ایک اچھائی یہ ہے کہ اسکی بدولت سب لوگوں کو اپنے اپنے دائرے میں رائے عامہ دریافت کرنے کا وسیلہ ہاتھ آگیا ہے۔ سب لوگ خاص طور پر ٹویٹر کے دلدادہ اپنے ذاتی رجحانات اور تجاویز کے بارے میں دوسروں کے تاثرات اور خیالات آسانی سے معلوم کرلیتے ہیں۔ میں بھی کئی موضوعات پر رائے عامہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں۔ رائے عامہ کے نجی جائزوں سے کالم نویسی میں بڑی مدد ملی۔ میں نے متعدد کتابوں کے کورز کا انتخاب کیا او ران میں سے بہتر تَر کی نشاندہی کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔کتاب کے جس کو رکے بارے میں زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا گیا میں نے اسی کا انتخاب کرلیا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب رائے عامہ کے جائزے کا سلسلہ بڑا محدود تھا۔ اعدادوشمار گھڑ کر پیش کئے جاتے تھے۔ معاشرے کی دلچسپی اور فیصلہ سازوں کی صحیح سوچ تک رسائی بڑی مشکل ہوتی تھی۔
سوشل میڈیا کی بدولت مذکورہ کمی بڑی حد تک دور ہوگئی ہے لیکن اس کا دائرہ مقدار تک محدود ہے۔ معیار کے مسئلے کا حل ابھی باقی ہے۔ حق اور سچ یہ ہے کہ رائے عامہ کے جائزے تیار کرنا باقاعدہ ایک فن بن چکا ہے۔ جامعات میں مضمون کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ ماہرین رائے عامہ کی حقیقت تک رسائی کے حوالے سے کافی قاعدے ضابطے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ایک پہلو کا اور اضافہ کرلیا جائے۔ وہ یہ کہ دیکھا جائے رائے کس قسم کے لوگوں سے لی جارہی ہے او ررائے دریافت کرنے میں کیا ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس کا عمل دخل بھی سچائی تک رسائی کے باب میں بیحد اہم ہے۔ اسی وجہ سے ایک ہی موضوع پر مختلف اداروں کی جانب سے کرائے جانے والے جائزوں کے نتائج بسا اوقات مختلف ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ہمیں عوام کی دلچسپیوں کا پتہ لگانے اور لوگوں کے افکار و خیالات ریکارڈ پر لانے کیلئے ایسے اسپیشلسٹ سینٹرز کی ضرورت ہے جو غیر جانبدار ہوں، خودمختار ہوں او راس شعبے کے ماہر ہوں۔ اس قسم کے سینٹرز کاقیام ذہنی عیاشی کے زمرے میں نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کی بابت حقیقت حال دریافت کرنے کیلئے متعلقہ گروپوں کے رجحانات اور افکار معلوم کرنے پڑتے ہیں۔ اعدادوشمار کی کمی اور افکار و خیالات کے اندراج میں کوتاہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ شاہراہ پر چل رہے ہیں اورآپ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ یہ دہری جہالت بصد افسوس وزارتوں ، اداروںاور کمپنیوں کی سطح پر اچھی خاصی پائی جاتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری وزارتیں یا ادارے یا کمپنیاں متعلقہ افراد کے خیالات دریافت کئے بغیر کامیابی کی توقع کیونکر کرتی ہیں۔
دوسری جانب جمہوری معاشروں میں رائے عامہ کے جائزوں کے ہنر نے بڑی ترقی کی ہے۔ عوام بھی وہاں بہتر شکل میں رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے خیالات دریافت کرنے والے ادارے بھی اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مذکورہ معاشروں میں اسپیشلسٹ سینٹرز قائم ہوگئے ہیں۔ عرب دنیا میں ان جیسے مراکز ناپید ہیں۔ امریکہ میں گلوب انسٹیٹیوٹ، برطانیہ میں مورائی اور کینیڈا میں انجیوز قابل ذکر ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ خبر رساں ادارے، ٹی وی اسٹیشن اور بڑے اخبارات بھی رائے عامہ دریافت کرنے والے خصوصی شعبے قائم کئے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے رواج کے بعد آن لائن رائے عامہ کے جائزے تیار کرنے والی ویب سائٹس بھی قائم ہوگئی ہیں۔
میں یہ مانتا ہوں کہ سعودی عرب میں اس حوالے سے ماضی کے مقابلے میں بہتری آئی ہے تاہم یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں غیر سرکاری، غیر جانبدار اور خودمختار ایسے اداروں کی شدید ضرورت ہے جو مختلف مسائل کی بابت لوگوں کی آراءدریافت کرنے کا اہتمام کریں۔ جب اس قسم کے مراکز معرض وجود میں نہیں آتے توانٹرنیٹ کے ماہرین کے سامنے ایک اسپیشلسٹ ویب سائٹ ڈیزائن کرنے کی پیشکش کرونگا۔ ویب سائٹ کا عنوان ”بماذا تفکر السعودیہ“ (What The saudi Thinks) ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭