Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 05 اگست ، 2025 | Tuesday , August   05, 2025
منگل ، 05 اگست ، 2025 | Tuesday , August   05, 2025

ترقی

محمد مبشرانوار
    گزشتہ2ہفتوں سے پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلسل محو سفر ہوں اور حیرت زدہ ہوں بالخصوص جس لاہور کو میں نے4 سال پہلے دیکھا تھا ،آج کا لاہور، وہ لاہورہی نہیں،جس سے رومانس اور یادیں جڑی ہیں۔ آج کا لاہور طول و عرض میں بہت زیادہ پھیل چکا ہے، ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر میرے لئے اکیلے کرنا نا ممکن ہو چکا ہے،چمچماتی سڑکوں کا ایک جال ہے،جو پورے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے،فلائی اوورز تو کہیں انڈر پاس،رنگ روڈ اورعوام کی رہائش کے لئے شتر بے مہار ہاؤ سنگ سوسائٹیز ،علاوہ ازیں اورنج ٹرین کی بہار،جو لاہور کے ایک سرے سے دوسرے تک زیر تعمیر ہے۔ پہلے سے موجود سڑکوں کو مزید وسیع کر کے بہتر سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ وسعت فقط وہیں تک ہے جہاں تک مجوزہ منصوبے کو بروئے کار آنا ہے،اس سے متصل علاقے کو  لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔بلا شبہ عوامی خدمت اور آسائش کے لئے ایسے منصوبے ضروری ہیں تا کہ عوام بہتر ماحول میں زندگی گزارے، اسے رہنے کے لئے چھت میسر ہو،آنے جانے کی بہتر سہولیات ہوں لیکن افسوس صرف اس بات کا ہے کہ کیا ہاؤسنگ سوسائٹیز یا سڑکوں کا اچھا اور وسیع جال بہتر زندگی کا ضامن ہے؟کیا یہ سہولیات فراہم کرکے عوام کو بغیر تربیت ان وسائل کا بے ہنگم استعمال احسن اقدام ہے؟کیاتمام تر وسائل کو ایک شہر میں جھونک کر یہ سمجھنا کہ سارے عوام کو بہتر سہولیات فراہم ہو چکی،خود فریبی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کنکریٹ کا جنگل اگا کر کیا ہم ماحول کی بربادی نہیں کر رہے؟ہاؤسنگ سوسائٹیز کو کھلی چھٹی دے کر زراعت کا قتل عام نہیں ہو رہا؟ میں آج خود سے شرمندہ ہوں کہ آنے والی نسل کے لئے ہم کیا چھوڑ کر جائیں گے کہ سونا اگلتی زرخیز زمینیں آج بے دریغ رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیںجبکہ ان کے متبادل کے طور پر حکمرانوں نے زمینوں کی آباد کاری کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں دی۔ لاہور کے قدرتی حسن کولینڈ مافیا کے ہاتھوں میں دے کر،غریب عوام کوذاتی چھت کے سہانے سپنے دکھا کر ان سے ایک طرف پیسے تو اینٹھ ہی رہے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کی بری طرح بربادی کا عمل انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جاری و ساری ہے۔لاہور سے کسی بھی سمت نکل جائیں،10،15 سال پہلے جہاں لہلہاتی فصلیں آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی نظر آتی تھی،اب وہاںدھڑا دھڑ رہائشی سکیموں کے تحت عمارتیں زیر تعمیر ہیں۔ تسلیم کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ رہائشی سہولتیں ناکافی ہوتی جا رہی ہیںلیکن اول تو یہ طریقہ کار ہی انتہائی غلط ہے کہ ایک ہی شہر میں تمام تر سہولیات کی فراہمی میں وسائل کو جھونک دیا جائے،دوئم یہ کہ اتنی تیزی سے زرعی زمینوں کو رہائشی عمارتوں میں تبدیل کرنے کی بجائے بلندو بالا عمارتوں کی تعمیر زیادہ آسان حل ہے۔ اصولاً تو آبادی کو دستیاب وسائل کے تحت ہی بڑھنا چاہئے لیکن مذہبی نقطہ نگاہ سے اگر یہ ممکن نہیں توآج رہائشی ضروریات کو پورا کرتے کرتے کل خوراک کی شدید کمی کا سامنا کس طرح پورا ہو گا؟
    ایک شہر کو پورا پاکستان تصور کرنے والے کم عقلوں کو کون اور کس طرح سمجھائے کہ اگر اسی طرح صرف ایک شہر کو ترقی دی جاتی رہی تو اطراف سے آنے والوں کو کس طرح روکا جائے گا؟جو اس وقت شہر لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے قرب و جوار میں رہنے والے ، اس شہر کی چکا چوند سے متاثر ہو کر ،اپنے آبائی گھروں کو بیچ کر اس شہر کا رخ کر رہے ہیں۔دوسری طرف حکمران طبقے میں شامل افرادکا جہاں زور چلتا ہے،اندرونی معلومات کی بنیاد پر، ایسے رقبوں کو ہر صورت خریدنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں،جس کے مستقبل میں کسی بڑے منصوبے میں آنے کاامکان ہواور اس طرح سخت بد دیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تیسری طرف اگر ملکی زرعی حالت پر نظر دوڑائیں تو اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کاشتکار انتہائی ظالمانہ نظام میں بری طرح پس رہا ہے اور اس چکا چوند میں اپنی زمینوں کو بیچ کر شہر لاہور کا رخ کرتا نظر آتا ہے کہ جب تمام وسائل اور سہولیات اسی شہر میں ہیں اور اسے کاشتکاری کے لئے نہ پانی میسر ہے ،نہ کھاد اور نہ ہی مناسب بیج،نہ فصل کے بار آور ہونے پراصل و نقدقیمت اور نہ ہی ساری فصل بکنے کی ضمانت، تو کیا ضرورت ہے کاشتکاری کی؟کیا اس کا مقصد بھی کہیں وطن عزیز کو بالآخر بنجر بنا کر ہندوستان کی جھولی میں پھینکنا تو نہیں؟
    اسلام میں بڑھتی ہوئی آبادی سے نپٹنے کے لئے واضح احکامات موجود ہیں کہ جب شہروں کی آبادی ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو نئے شہر آباد کرو نہ کہ موجودہ شہروں کو وسعت دو۔فی زمانہ نئے شہر آباد کرنے کے ساتھ ساتھ مہذب معاشرے انتظامی لحاظ سے، اختیارات منتقل کرتے چلے جاتے ہیں تا کہ مقامی سطح پر ہی مسائل کا تدارک احسن طریقے سے ہو سکے اور عوام الناس کو اپنے مسائل کے لئے دور دراز کا سفر اختیار نہ کرنا پڑے۔ ہمارے امراء ہر وقت جمہوریت کا راگ تو ضرور الاپتے ہیں مگر کوئی ایک بھی اس پر عمل پیر ا ہونے کے لئے تیار نہیں،انتخابی نعروں کی حد تک یا حریف سیاسی جماعت کے لئے مسائل پیدا کرنے کے لئے نئے صوبوںکا شوشہ تو ضرور چھوڑا جاتا ہے مگر عملاً کوئی بھی کچھ کرنے میں سنجیدہ نہیں جس کی وجہ سے پسماندہ علاقے مزید پسماندگی کا شکار ہیں جبکہ ان کے منتخب نمائندے بھی ان کے حقوق کی آواز اٹھانے میں سنجیدہ نہیں بلکہ تخت لاہور کے اشارہ ابروپر اپنے علاقوں کے ترقیاتی اخراجات سے بآسانی دستبردار ہو جاتے ہیں۔ کنکریٹ کے اس جنگل سے ماحولیاتی آلودگی الگ ہے کہ ایک طرف سبزے سے بھرپور زمینوں پر کنکریٹ کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہاں موجود ان درختوں کو بے دردی و بے رحمی سے کاٹا جا رہا ہے،جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں اور گزشتہ چندسالوں کے سرد موسم میں دھند’’فوگ ‘‘ کی بجائے سموگ کا راج رہا ہے،جو شہریوں کے لئے وبال جان ہے۔ اس سموگ میں پائے جانے والے جان لیوا ذرات شہریوں کی زندگی کو مسلسل اجیرن کر رہے ہیں،انہیں قصاب نما مسیحاؤں کے در پر پھینک رہے ہیں اور ایک بیمار قوم کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ پنجاب میں بننے والے مختلف مراکز صحت،حکومت چلانے سے قاصر ہے اور ایسے نئے مراکز کو این جی او انڈس کے حوالے کرنے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے(جس پر علیحدہ کسی وقت لکھوں گا)،انشورنس کا طریقہ کار بھی متعارف کروایا گیا ہے مگر ان سب کے باوجود،جن ممالک کی تقلید میں یہ سب کچھ ہوا ہے،ان ممالک میں پائی جانے والی ایک خاص صفت سے پاکستانیوں کو محروم کیا جا چکا ہے۔ ان ممالک میں تہذیب اور ان وسائل سے بہرہ مند ہونے کا سلیقہ آج بھی پاکستان میں نا پید ہے،تاہم اگر اس مفروضے کو بھی سامنے رکھا جائے کہ بتدریج ’’قوم‘‘ سیکھنے کے مراحل سے گزر کر ان کو استعمال کر سکے گی،تب بھی بہتر یہ ہوتا کہ ان سہولیات سے قبل ’’قوم‘‘ کی تشکیل کی جاتی،آج ہم جس طرح تقسیم در تقسیم ہیںاس پس منظر میں ، اس ترقی کے منفی ثمرات تو اس ملک اور ہجوم کو حاصل ہو سکتے ہیں، مثبت نہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - کراچی کے اندھیرے
 

شیئر: