Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
بدھ ، 18 جون ، 2025 | Wednesday , June   18, 2025
بدھ ، 18 جون ، 2025 | Wednesday , June   18, 2025

کیا سعودی شہری شمسی توانائی منصوبہ چلاسکتے ہیں؟

فہد عریشی۔ الوطن
سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ امریکہ و فرانس کے موقع پر بار بار یہ بات کہی کہ سعودی عرب نے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا ابھی تک صرف 10فیصد ہی استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب نے اب تک جن مہیا وسائل سے استفادہ نہیں کیا اور جن سے ابھی تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا ان میں شمسی توانائی سرفہرست ہے۔ ہمارے یہاں شمسی توانائی پینل کی صنعت میں استعمال ہونے والا خام مواد وافر مقدار میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر پیتل، شیشہ اور سلکا وافر مقدار میں مہیا ہیں۔ ہمارا محل وقوع بیحد اہم ہے۔ سعودی عرب سورج کی تمازت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہاں چلچلاتی دھوپ پڑتی ہے خاص طور پر موسم گرما میں یہاں کی دھوپ بیحد شدید ہوتی ہے۔ سعودی ولی عہد نے 200ارب ڈالر کی لاگت سے دنیا بھر میں شمسی توانائی کے سب سے بڑے منصوبے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت دنیا کی 50فیصد شمسی توانائی پیدا ہوگی۔ منصوبے کو چلانے کیلئے نجی کمپنی قائم کی جائیگی۔ اس تناظر میں یہ سوال بجا طور پر ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا مذکورہ کمپنی کے تقاضے پورے کرنے کیلئے ہمارے یہاں اہل سعودی کارکن مطلوبہ تعداد میں موجود ہیں؟ جب یہ کمپنی روزگار کیلئے مقامی شہریوںسے درخواستیں طلب کریگی تو کیا شمسی توانائی کے ماہر سعودی انجینیئر آگے آئیں گے؟ اس شعبے میں خصوصی مہارت رکھنے والے سعودی انجینیئر کتنی تعداد میں ہیں۔ سعودی جامعات میں ایسی کتنی فیکلٹیاں ہیں جو شمسی توانائی کے ماہر تیار کررہی ہیں؟ 
سعودی آرامکو 1933ءمیں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت ہمارے یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی۔ اُس وقت ہمارے یہاں دنیا بھر کی جامعات سے استفادے کےلئے بھیجے جانے والے طلباءکا کوئی بڑا پروگرام نہیں تھا۔ اُس وقت ہمارے یہاں ایسے نوجوان نہیں تھے جو مستقبل میں رونما ہونے والے روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھاسکیں۔ان حقائق کی بنیاد پر آرامکو پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔ مجبوراً آرامکو نے دنیا بھر کے ممالک سے غیر ملکی عملے کی خدمات حاصل کیں۔ رفتہ رفتہ اہل سعودی نوجوانوں کو غیر ملکیو ںکی جگہ تعینات کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اب سعودی آرامکو مقامی نوجوانوں کی بدولت آگے بڑھ رہی ہے او رسعودی نوجوان کثیر تعداد میں آرامکو کے عملے کا حصہ بن چکے ہیں۔یہ اہم کمپنیوں اور سرکاری اداروں کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں۔اس حوالے سے ایک پہلو بیحد اہم ہے اور وہ یہ کہ آرامکو کی مذکورہ کامیابی کا عرصہ 80برس پر محیط ہے۔
سعودی بجلی کمپنی نے بھی لگ بھگ وہی تجربہ کیا جس سے آرامکو گزری۔ ہمیں اس موقع پر سابک تجربے کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ اب جبکہ شمسی توانائی کمپنی قائم ہورہی ہے، آیا اسکے پاس ایسا کوئی عذر ہے کہ اسے چلانے کیلئے ماہر سعودی عملہ مہیا نہیں۔ نئی کمپنی کے معاملات کون دیکھے گا؟ ہمارے یہاں نوجوان کثیر تعداد میں تیار ہورہے ہیں۔ فی الوقت مملکت غیر ملکی جامعات سے استفادہ کےلئے تعلیمی وظا ئف کا بہت بڑا منصوبہ نافذ کررہی ہے مگر اب جبکہ حکومت نے شمسی توانائی جیسے عظیم الشان منصوبے کا اعلان کردیا ہے تو اس موقع پر ہمارے سامنے یہ سچائی ابھر کر آئی ہے کہ اہل نوجوانوں کی تعداد ناکافی ہے۔ میرے خیال میں شمسی توانائی کمپنی کی ضرورتیں پوری کرنے والے زیادہ سے زیادہ 5فیصد سعودی ہونگے۔ یہ کمپنی 2019ءمیں قائم ہوگی۔ ایسے عالم میں قائم ہوگی جیسا کہ 1933ءمیں آرامکو کمپنی کے قیام کا عالم تھا۔ میں نے سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر جاسر الحریش کے سامنے تجویز رکھی ہے کہ وہ شمسی توانائی میں مہارت حاصل کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کریں۔ اس چیلنج کو پیش نظر رکھیں کہ ہم نہ صرف یہ کہ شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کرنے جارہے ہیں بلکہ ہم ایسے منصوبے پر کام کرنے والے ہیں جسے پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس منصوبے کیلئے کم از کم ایک لاکھ کارکن درکار ہونگے۔ 10ہزار انجینیئر اور 50ہزار ٹیکنیشنز کی ضرورت ہوگی لہذا اس کمپنی کی سعودائزیشن کیلئے ہمیں سریع رفتارعظیم منصوبہ تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں اس کےلئے عمدہ تال میل پیدا کرنا ہوگا اور سعودی یونیورسٹیوں اور تعلیمی وظائف پروگرام کے عہدیداروں کے درمیان یکجہتی بھی پیدا کرنا ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: