Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 30 اکتوبر ، 2025 | Thursday , October   30, 2025
جمعرات ، 30 اکتوبر ، 2025 | Thursday , October   30, 2025

مذاق

***جاوید اقبال***
سپریم کورٹ آف پاکستان کے علم میں گزشتہ پیر کے روز چند مایوس کن حقائق لائے گئے۔ یہ بتایا گیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی میں 758 حکومتی اہلکار دہری شہریت کے حامل ہیں جبکہ دیگر 824 کی بیویاں صرف پاکستانی ہونے پر گزارہ نہیں کررہیں۔ ان میں سے 614 نے تو حکومت کو اپنی بیویوں کی دہری شہریت کی اطلاع دے رکھی تھی جبکہ 210 اس حقیقت پر پردہ ڈالے ہوئے تھے۔ 98 اہلکاروں نے اپنے خاندان پاکستان سے باہر بسار رکھے ہیں جبکہ ان میں سے 21 نے ابھی تک حکومت کو اس حقیقت سے بے خبر رکھاہوا ہے۔ یہ نہ صرف ایک ششدر کردینے والی بلکہ وحشتناک خبر ہے۔
اس انکشاف کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان دہری شہریت کی حامل خواتین کی ملکیت میں یا تو ہندوستانی پاسپورٹ ہیں یا پھر افغانی دستاویزات۔ یہ سب پڑھ کر مجھے گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ملک بھر میں کہرام مچادینے والا ایک واقعہ یاد آگیا۔ سید مصطفی زیدی ایک معروف شاعر تو تھے ہی اس کے علاوہ ایک بیوروکریٹ بھی تھے۔ سپریئر سروسز کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے اپنے لیے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں جگہ بنا گئے تھے۔ چنانچہ 5,6   ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب ضلعی انتظامیہ اور شہری آبادی کے لیے تو ڈپٹی کمشنرسب کچھ ہوتا ہے کہ انگریز ہمارے نصیبوں میں یہی لکھ گیا تھا۔ مصطفی زیدی کے آگے پیچھے دائیں بائیں ٹھیکیدار ، سرمایہ کار ، پٹواری اور پولیس افسران دست بستہ کھڑے حکم کے منتظر رہتے۔ 10,12 کنال کے حکومتی بنگلے میں خدمتگاروں کی فوج ظفر موج باورچی خانے سے انواع و اقسام کے کھانوں اور لان میں بنی کیاریوں سے پھولوں کی مہک اڑاتی رہتی۔
مصطفی زیدی شاعر بھی تھے۔ چنانچہ ہر محفل شعرو ادب ان کی آواز سننے کو ہی بیتاب رہتی۔ حلقہء شناسایاں ہزاروں تک پہنچ گیا۔ کسی زمانے میں آسٹریا کی ایک سفید فام خاتون سے شادی کی تھی۔ ویرا زیدی نے اردو سیکھی۔ 2 بچے پیدا ہوئے اور یوں مصطفی زیدی کی غیر منظم زندگی کو دساور سے آئی اہلیہ نے خاصا سنبھال لیا لیکن پھر ایک سانحہ ہوگیا۔ لاہور کی کسی محفل شعر میں ایک افغان نژاد حسینہ پر نظر جا گری اور پھر مصطفی زیدی بھی گر گئے۔ اس 20 سالہ نوجوان لڑکی شہناز گل کا شوہر سلیم گل ایک انجینیئر تھا اور ان کی 2 بچیاں بھی تھیں لیکن طلب شہرت وجاہ نازک دلوں کے آبگینے پگھلا دیتی ہے۔ شہناز گل اپنے خانگی روابط کو فراموش کرکے مصطفی زیدی کی زندگی میں بھونچال بنی آئی۔ شب و روز اس کے حسن کو بیان کرتے ردیف قافیے کی جستجو میں بسر ہونے لگے۔ بیوروکریسی میں کہرام مچ گیا۔ اعلانیہ طور پر افغان حسینہ کی تعریف میں غزلیں کہی جانے لگیں۔ آسٹریائی اہلیہ نے تھوڑا عرصہ برداشت کیا پھر اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے خاموشی سے انہیں ہمراہ لیے واپس آسٹریا سدھار گئی۔ 
مصطفی زیدی کے حواس اب اپنے نہیں رہے تھے۔ شب و روز شہناز گل کی ہمراہی میں بسر ہونے لگے۔ اس دوران صدر ایوب خان کی حکومت گری اور یحیی خان کے اقتدار کا آغاز ہوا۔ فوج کا اپنا ایک موثر جاسوسی کا نظام ہوتا ہے چنانچہ فہرستیں مرتب ہونے میں دیر نہ لگی۔ 2 دسمبر 1969ء کو جنرل یحیی خان نے حکمنامہ نمبر 58 کا اجراء کیا جس کے مطابق 303 سی ایس پی افسروں کو بہ یک جنبش قلم معطل کردیا۔ عرش سے فرش اور پھر تحت الثراء کے سفر کا آغاز ہوچکا۔ معطل ہونے والے عدالتوں کی طرف بھاگے اور ہر شام سروں پر سفید ٹوپیاں جمائے مزاروں کا رخ کرنے لگے۔ سید مصطفی زیدی کا مقدمہ بھی چلا اور پھر مئی 1970ء کو جب عدالت عالیہ کا فیصلہ آیا تو مدعی کی معطلی برخواستگی میں تبدیل کردی گئی۔ یحییٰ خان کی طرف سے کی گئی معطلی کے وقت مصطفی زیدی کا عہدہ وزارت بنیادی جمہوریت کے ڈپٹی سیکریٹری کا تھا۔ جب زوال کے سفر کا آغاز ہواتو نفرت اور بدنامی مقدر میں آتے گئے۔
12 اکتوبر 1970ء کو ایک دوست کے گھر کی پہلی منزل پر جب دروازے توڑ کر پولیس داخل ہوئی تو سید مصطفی زیدی کی لاش موجود تھی۔ دوسرے کمرے میں شہناز گل بیہوش پڑی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ  نے شرمناک حقائق کا انکشاف کیا۔ ایوب خان کی آمریت رخصت ہوچکی تھی۔ انتخابات قریب تھے چنانچہ ذرائع ابلاغ نے اظہار بیان پر لگی سب زنجیریں توڑ دیں۔ مصطفی زیدی کی زندگی کے ہر گوشے کو طشت ازبام کیا گیا۔ نت نئے حقائق سامنے آئے تو یحیی خان کے بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کے اقدام کو بے حد سراہا گیا۔ مصطفی زیدی کی موت کے بعد ان کا یہ شعر ہر زبان پر آیا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
کوئی حقیقت پسند دیوانہ ہوتا تو اس کا جواب کچھ یوں دیتا:
تم اپنے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرو
ذرا اتار کے دیکھ تو اپنے دستانے
مصطفی زیدی کا قصہ اس لیے یا دآیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ ملک کی بیوروکریسی کی قابل مذمت من مانیوں کی تصویر پیش کرتی ہے۔ دہری شہریت کے حامل ہماری بیوروکریسی کے اہلکاروں کی حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔
اگر پاکستان سے اتنا ہی پیار ہے تو پھر اس سے روگردانی کا کیوں سوچا؟ جس طرح وطن عزیز کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر بیوروکریٹ کو انتہائی باریک سوراخوں والی چھلنی سے دوبارہ گزارا جائے۔ افسر صرف پاکستانی ہو اور صرف پاکستان کا نمک خوار ہو۔ مرنا اسی گلی میں ، جینا اسی گلی میں۔ اس کی جتنی بھی گھروالیاں ہوں سب صرف اور صرف پاکستانی ہوں۔
ہماری آئندہ کی نسلوں کو صرف پاکستان میں جنم دیں۔ ہمارے بیوروکریٹ کی زیادتیوں پر وقت ضائع کئے بغیر بند باندھا جائے۔ انہیںمصطفی زیدی نہ بننے دیا جائے۔ نہ وہ کوئی ویرا زیدی لاسکے اور نہ اسے کوئی شہناز گل ہمراہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ 
یہ پاکستان ہے ، کوئی مذاق نہیں!
 

شیئر: