کراچی (صلاح الدین حیدر )پچھلے2 دنوں کی انتھک کوششوں کے باوجود ایم کیو ایم کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ ایک ایسی جماعت جس نے 1986میں مہاجر قومیت کوشناخت دی۔آج 31سال بعد خود کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔کہنے کو بات چھوٹی سی ہے، لےکن اس قدر طول کھینچ گئی کہ کسی کے فہم و گمان میں نہیں تھا۔ ساری کہانی اےک فرد کے گرد گھومتی ہے۔نام ہے کامران ٹیسوری۔ ایک بزنس مین، جو پہلے بھی پارٹیاں تبدیل کر چکا تھا۔ پیپلز پارٹی سے نکالا گیا، پھر پگارا کی فنکشنل لیگ میں بھی اس کا کردار منفی ہی رہا۔ ایم کیو ایم پاکستان میں پچھلے کچھ مہینوں پہلے شامل ہوااور اےک منفرد جگہ بنالی۔ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈرڈاکٹر فاروق ستار کے قریب ہونے کے نا تے کراچی میں ہونے والے صوبائی اسمبلی میں ضمنی انتخاب میں نامزدگی ملی لیکن پیپلز پارٹی کے سعید غنی سے ہار گیا۔ اب اس کا نام سینیٹ کی خالی ہونے والی نشست کے لئے نامزد کیا گیا، لےکن پلک جھپکتے میں تنازع کھڑا ہوگیا ۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بضد ہیں کہ 4فائنل ہونے والے ناموں میں اسے شامل کیا جائے لےکن باقی ماندہ ایم کیو ایم ، جس میں بڑی اکثریت سرکردہ لوگوں کی ہے نے مخالفت کردی ۔اُمید تو تھی کے دو روز ہ مذاکرات کے بعد مسئلہ حل ہوجائے گا، لےکن ایسا نہیں ہوسکا، ایم کیو ایم کی را بطہ کمیٹی نے فاروق ستار کی رہائش پیر الٰہی بخش کالونی پر ہونے والے اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کردیا۔ میئر کراچی وسیم اختر نے تو ےہاں تک کہہ دیا کہ ایم کیو ایم کا مرکز صرف بہادرآباد ہے۔ پی آئی بی کالونی نہیں۔سینیٹر نسرین جلیل ، کے دلچسپ جملے سے اس کی پذیرائی کی۔ معلوم نہیں کامران ٹیسوری کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے۔ظاہر تھا کہ وہ بھی فاروق ستار کے خلاف ہی نظر آئےں۔ ایم کیو ایم پاکستان اب تولگتاہے کہ تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے۔ جس کے نتےجے میں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجر کمیونٹی پر بہت برا اثر پڑے گا۔