عالمی یومِ خالو کب منائیے گا ؟
اب سے ایک ہفتے بعد ( 14 فروری ) کو ویلنٹائن ڈے ( یومِ محبت ) منایا جائے گا۔اور خبر ہے کہ ایک اسلامی ملک کے ہوٹل نے ( شائد پہلی بار ) یومِ محبت کی پیشگی تقریباتی بکنگ کھول دی ہے۔اگر یہ خبر درست ہے توپھر اس ملک سے سیاسی و ثقافتی قربت کے سبب یقینا اس کا پاکستان میں بھی مثبت اثر پڑے گا۔
دنیا میں اس وقت دو یوم سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ویلنٹائن ڈے اور یومِ مادر۔ویسے تو فادرز ڈے بھی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کتنے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔آدھوں کو تو یاد ہی نہیں رہتا اور باقی آدھے کچھ اس طرح سے فادرز ڈے کی مبارک باد دیتے ہیں کہ ’’ اچھا ابا تجھے بھی یہ دن مبارک ہو’’۔۔۔۔
ہر سال دنیا کے اکثر ممالک میں 11 مئی بطور یومِ مادر منایا جاتا ہے۔ آغاز امریکہ سے ہوا۔ہوا یوں کہ ریاست ورجینیا کی ایک خاتون اینا ہارویس نے 1905 میں اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر عہد کیا کہ وہ ان کا کام آگے بڑھائیں گی۔اینا کی والدہ نے امریکی خانہ جنگی کے دوران زخمی ہونے والے شہریوں اور فوجیوں کی بلا امتیاز بطور نرس خاصی خدمت کی تھی۔چنانچہ اینا نے تحریک چلائی کہ ہر سال اس ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے دن مقرر کیا جائے جو دنیا کی سب سے بے غرض ہستی ہوتی ہے یعنی ماں۔اس تحریک کے نتیجے میں ریاست ورجینیا میں 1908سے مدرز ڈے کی چھٹی ہونے لگی اور پورے امریکہ میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو مدرز ڈے1914سے منانا طے پایا۔
مغربی معاشرہ چونکہ صنعتی دور میں داخل ہوچکا تھا اور بچے چونکہ اکثر گھروں سے دور رہ کر کام کاج پر مجبور تھے۔ اس ناتے مشترکہ خاندانی نظام بھی کمزور ہو رہا تھا لہذا سال میں ایک دن ماں کے لئے مختص کرنے کی وجہ اور منطق سمجھ میں آتی ہے لیکن مشرقی معاشرہ آج بھی کسی نہ کسی حد تک مشترکہ خاندانی نظام اور اس نظام کے تئیں بزرگوں کی قربت سے جڑا ہوا ہے۔لہذا ایسے سماج میں جہاں تقریباً ہر روز ہی مدرز ڈے منایا جاتا ہے سال کا کوئی ایک دن ماں کے لئے مختص کرنا عجیب سا لگتا ہے۔
مغرب میں آپ کو کہیں کسی گاڑی پر ماں کی شان میں قصیدے لکھے نہیں ملیں گے۔لیکن ہندوستان پاکستان میں آپ کو ہر کوئی روزانہ ماں کا ذکر کرتے ہوئے ملتا ہے۔ رکشوں کے پیچھے اکثر لکھا ہوتا ہے ’’ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں’’۔۔۔یا ٹرک کے پیچھے چمک رہا ہوتا ہے ’’یہ سب میری ماں کی دعا ہے’’۔میں نے بہت سے بٹوے دیکھے ہیں جن میں ماں کی تصویر ہوتی ہے۔کئی بچے جو گھروں سے دور ہوتے ہیں روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے روز فون پر کہتے سنائی دیتے ہیں ’’ ماں تم فکر نہ کرو میں ٹھیک ہوں’’۔آج بھی گھروں میں ماؤں کی ہی چلتی ہے اور باپ بھیگی بلی کی طرح منمناتا ہوا پایا جاتا ہے کہ بیٹا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن تم اپنی ماں سے پوچھ لو۔
مغرب کے برعکس مشرق میں مائیں آج بھی اپنی اولاد کے مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں۔کیا آج بھی لڑکا لڑکی سے نہیں کہتا کہ دیکھو مجھے تم سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ماں نہیں مانتی۔کیا لڑکی لڑکے سے نہیں کہتی کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی مگر ماں کو بھی ناراض نہیں کرسکتی۔یا لڑکا یہ نہیں کہتا کہ اسلام آباد میں بہت اچھی نوکری مل رہی ہے مگر اماں اکیلی رہ جائیں گی اس لئے میں کراچی نہیں چھوڑ سکتا۔میں نے فوج میں کمیشن کا انٹرویو تو پاس کرلیا ہے مگر ابھی اماں کو بھی سمجھانا ہے کہ فوجی نوکری میں کوئی قباحت نہیں ویسے بھی آج کل فوج کہاں جنگ ونگ لڑتی ہے جو آپ مجھے روک رہی ہو۔ایسی سینکڑوں روزمرہ مثالوں کے ہوتے ہوئے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مشرق میں مدرز ڈے الگ سے منانے کا رواج کیوں پڑ گیا۔
نانی اور ماموں چونکہ ہر بچے کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں اور ماں کے بعد انہی رشتوں سے بچے اکثر قربت محسوس کرتے ہیں لہذا ان کے علیحدہ سے یومِ ماموں اور یومِ نانی نہ بھی منائے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دن ان رشتوں کے منانے چاہئیں جن کی خاندان میں ایک ان کہی ثانوی حیثیت ہوتی ہے۔تاکہ ہر نسل کو ان رشتوں کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا رہے۔جیسے اکثر گھروں میں ایک عدد دادا یا نانا ابا بھی پائے جاتے ہیں۔سب ان کی عزت کرتے ہیں لیکن انکے مشوروں اور نصیحتوں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔کم وبیش یہی سلوک تایا کیساتھ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
خاندان میں تقریباً ہر خونی رشتے سے ہر بچے کا کوئی نہ کوئی جذباتی تعلق ہوتا ہے حتی کہ چھوٹے چچا سے بھی۔مگر بعض رشتے ایسے ہوتے ہی جو بس ہوتے ہیں اس لئے ہوتے ہیں۔جیسے خالہ نہ ہوں تو خالو کو کون پوچھے۔یا پھوپھی کا وجود نہ ہو تو پھوپھا کو کون منہ لگائے۔ان طفیلی رشتوں کی خاندانی معاملات میں اتنی ہی چلتی ہے جیسے ملکہ برطانیہ یا صدر ممنون حسین کی اپنے ملک کے روزمرہ معاملات میں۔
میں نے تو اکثر کنبوں میں یہی دیکھا کہ خالو اور پھوپھا نامی مخلوق بھانجے بھتیجوں کے رشتوں کے موقع پر مہمانوں کے سامنے خاندان کی عددی گنتی بڑھانے کے کام آتی ہے۔یا پھر انہیں شادی و مرگ کے موقع پر ضروری انتظامات میں کھپا دیا جاتا ہے۔مثلاً کھانے کی دیگ پر آپ عموماً کسی پھوپھا یا خالو کو ہی بیٹھے پائیں گے۔ ان کے بارے میں جانے کیوں خواہ مخواہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ مہمانوں کی تعداد چاہے کتنی ہو یہ دونوں اپنے تجربے سے کھانا کم نہیں پڑنے دیں گے۔بقر عید جیسے مواقع پر گائے پچھاڑنے یا قصائی بک کرنے اور پھر اس قصائی پر قصابی نگاہ رکھنے تک ہر ناگوار فریضہ بھی عموماً خالو اور پھوپھا کے سر منڈھا جاتا ہے۔ ان مظلوم رشتوں کو خاندان میں ان کا جائز مقام دلانے کے لئے ضروری ہے کہ مدر اور فادر ڈے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے یوم ِ خالو اور یومِ پھوپھا منایا جائے۔
مگر مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ میں سے کوئی ان تجاویز پر کان نہیں دھرے گا۔اور آپ انہی رشتوں کے دن مناتے رہیں گے جنہیں اپنی مقبولیت اور اہمیت ثابت کرنے کے لئے کسی خاص دن کی ویسے بھی ضرورت نہیں۔