تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن ضروری ہے کہ تعلیم ماضی کے ساتھ ساتھ حال کا بھی احاطہ کرے
* * * *مسعود جاویدؒ۔ جدہ* * * *
مسلمانوں کا عروج جس کا خاتمہ1700ء میں ہوا۔ یہ عروج ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک رہا۔ دنیاکی کسی قوم کو اتنا عروج حاصل نہیں ہوا ۔مسلمان ایک ہزار سال تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنے رہے۔ یونانیوں کا عہد عروج 2 سو سال میں ختم ہوگیا۔ رومی 4 سو سال تک دنیا کی عظیم طاقت بنے رہے۔ موجودہ یورپ کے عروج کو ابھی3 سو سال مکمل ہوئے ہیں۔
اس عروج کے دور میں اگرچہ مسلمانوں نے عالیشان عمارتیں بنوائیں ، بڑے بڑے شہر آباد کئے ،صنعت و حروفت کو فروغ دیا لیکن ان کے عروج کی امتیازی حیثیت یہ تھی کہ وہ جہاں بھی گئے وہاں جہالت کے اندھیروں کو پاٹ کر رکھ دیا۔ آج اگرچہ یورپ اپنی علمی شخصیات پر فخر کرتا ہے لیکن جتنی محیر العقول شخصیات اسلام کے عروج کے دور میں موجود تھیں ،یورپ کی شخصیات ان کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔جس وقت اسلام پر عروج کا دور تھا، یورپ اس وقت تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ابن ساعد اور ابن خلدون نے یورپ کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ ابن ساعد لکھتے ہیں کہ:
’’سورج کی دوری کی وجہ سے ہوا میں ٹھنڈک اور فضا میں کثافت پیدا ہوگئی ہے۔ان کے مزاج سرداور دماغ گٹھل ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بدن موٹے ہوگئے ہیں، رنگ سفید ہوگیا اور بال لٹک گئے ہیں چنانچہ یہ قومیں باریک بینی اور ذہن کی تیزی سے محروم ہیں اور جہالت اور حماقت ان پر غالب ہوگئی ہے۔ یہ لوگ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے مشابہ ہیں‘‘
اس زمانے میں یورپ میں سوائے پادریوں اور چند امراء کے کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا جبکہ مسلمانوں کا ہر شخص پڑھا لکھا ہوتا تھا۔ فرانس کے بادشاہ کے کتب خانہ میں صرف 7 سو کتابیں تھیں جبکہ مسلمانوں کی شاہی لائبریری تو ایک طرف بہت سے عام لوگوں کے پاس ہزاروں کتابوں کا کتب خانہ ہوا کرتا تھا۔اس وقت قرطبہ یورپ کا علمی مرکز تھا۔ مسیحی یورپ کے اہل علم تعلیم حاصل کرنے اور تحقیق کرنے کے لئے اسلامی اندلس کا رخ کرتے تھے اور بالآ خر انہی لوگوں کے ذریعے عربوں کے بہت سے علوم فرانس اور اٹلی پہنچ گئے ۔ پاپائے روم پوپ سلویسٹر جوکہ فرانس کا رہنے والا تھا ،اندلس ہی سے علم حاصل کر کے گیا تھا۔ ابتداء میں جب اس نے ریاضی کی باتیں کیں تو اسے لوگ جادوگر کہنے لگے۔ یورپ میں پہلا شفا خانہ روم میں تیرہویں صدی میں قائم ہوا۔ جرارڈ قرامونی ،ایڈلارڈآف باتھ اور مائیکل اسکاٹ تینوں یورپ کے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔یہ تینوں اندلس سے علم حاصل کر کے گئے۔اندلس کے شہر سلامنکہ میں مسلمانوں نے جو یونیورسٹی قائم کی تھی وہ یورپ کی پہلی یونیورسٹی تھی۔عربی کتابوں کو لاطینی اور دیگریورپی زبانوں میں ترجمے کرنے کا کام طلیطلہ میں2 سو سال تک جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جارج اسارٹن جیسا مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ:
’’عہد وسطیٰ میں سب سے زیادہ عظیم کارنامے مسلمانوں نے انجام دیئے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس زمانہ میں لاطینی، یونانی، سریانی، فارسی، سنسکرت،چینی حتیٰ کہ جاپانی زبان میں بھی چند اہم کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن سب سے زیادہ قابل قدر، سب سے زیادہ قدرت رکھنے والی اور سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور مفید کتابیں عربی میں لکھی گئی ہیں‘‘
آٹھویں صدی کے نصف آخر سے گیارہویں صدی تک عربی نوع انسان کی ترقی پسند علمی زبان تھی۔ یہ مسلمانوں کی علمی برتری ہی تھی جس کے اثرات مسلمانوں کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود تھے جس کے باعث مسلمان دنیا پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب رہے۔مشہور مورخ ایچ جی ویلز (The Outline Of History) میں لکھتا ہے:
’’دنیا کا سب سے اچھا سیاسی اور سماجی نظام مسلمانوں کے پاس تھا اور اس وجہ سے اس کو غلبہ حاصل ہوا‘‘
لیکن پھر وہی قوم جس کے نبی کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ’’اقراء‘‘ تھا ،جس کی تعلیمات میں گود سے لے کر لحد تک علم حاصل کرنے کا کہا گیا تھا، جس کو تلقین کی گئی تھی کہ علم حاصل کرنے کے لئے تمہیں چین جیسے دور دراز علاقے میں بھی جانا پڑے تو چلے جانا اور علم حاصل کرنا۔ عالم کو زاہد پر فضیلت دی گئی اور عالم کی موت کو عالم کی موت کہا گیا۔ وہ قوم جو دنیا کو جہالت اور غفلت سے نکالنے کے لئے اٹھائی گئی تھی۔ صدیوں تک دنیا کی فرمانروائی کرتے کرتے آخر کار تھک گئی۔ جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور علم کی طاقت بخشی تھی اس کو انہوں نے خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر رکھ دیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس نبیکی سنت نے ان کی تہذیب کو ایک مکمل فکری و عملی نظام کی صورت بخشی تھی اس کی پیروی کو انہوں نے چھوڑ دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی کی رفتار رک گئی۔اس لئے امامت کے منصب سے مسلمان معزول ہوگئے۔ در حقیقت یہ علماء کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہورہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے۔مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی خزانے اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قومیں ترقی کر رہی تھیں اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے ماتحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے تو یوں صدیوں تک یہ جمود طاری نہ ہوتا اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی لیکن اس کے بر عکس اگر کسی خلیفہ یا بادشاہ نے آگے بڑھ کر اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش بھی کی تو انہوں نے تشبہ بالنصاریٰ کا فتویٰ دے کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ مثلاََ ترکی جو اس وقت3 بر اعظموں پر حکومت کر رہا تھا ۔انیسویں صدی کے آغازمیں سلطان سلیم نے علوم جدیدہ کی اشاعت کی طرف پیش قدمی ابھی شروع ہی کی تھی کہ اس وقت کے جاہل صوفیوں اور تنگ نظر علماء نے جو دین کے علم اور اس کی روح سے قطعاََ بے بہرہ تھے، مذہب کے نام پر ہر قسم کی اصلاحات کی مخالفت کی۔سنگین تک کے استعمال کی اس لئے مخالفت کی گئی کہ کافروں کے اسلحہ استعمال کرنا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کر کے اسلام کو خراب کر رہا ہے۔ شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو بادشاہی کے لائق نہیں۔ آخر کار1807ء میں سلیم کو معزول کر دیا گیا۔
سلطان سلیم کے بعد سلطان محمود نے اصلاح کی کوششیں کیں مگر علماء اور مشائخ مخالفت کرتے رہے اور ہر قسم کی اصلاحات کو بدعت قرار دیتے رہے۔ محمود کی فوج میں بھرتی ہونا مسلمانوں کے لئے خرابی ایمان کا موجب قرار دیتے رہے۔ یہاں تک کہ سینٹ گوتھرڈ کی شکست بھی ان کی آنکھیں نہ کھول سکی۔ یونہی نہیں، وہ قوم جس کا خلیفہ اگر عیسائیوں کے علاقے میں چلا جاتا تھا تو احتراماًگرجاؤں کے ناقوس نہیں بجائے جاتے تھے،جس کی ایک مثال سلطان محمد فاتح کے انتقال پر پاپائے روم نے 3 دن کا شکرانے کا روزہ رکھنے کا پوری عیسائی قوم کو کہا تھا کیونکہ وہ استنبول کے بعد ویٹیکن سٹی کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس قوم کے مذہبی پیشواؤں نے اپنی جہالت اور تاریک خیالی سے اس حد تک اسلام سے بیزار کر دیا کہ بعد میں آنے والے سربراہ مصطفی کمال اتاترک نے شیخ الاسلام کے سر پر قرآن کو دے مارا ۔یہ دراصل قرآن کی شکست نہیں تھی بلکہ مذہبی پیشواؤں کے تفقہ اور اجتہاد کی شکست تھی جو دیکھ رہے تھے مغربی قوموں کے ساتھ ان کی ماتحت یورپین اور عیسائی قومیں سرعت کے ساتھ مغرب کے اثرات قبول کر رہی ہیں لیکن ان تنگ نظر علماء نے ان تغیرات کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دفعہ ایک غبارہ اڑتا ہوا استنبول میں آگیا تو ترکی کے لوگ اسے طلسماتی چیز سمجھے۔اس کے بعد سلطان عبد الحمید نے تو اس تابوت میں آخری کیل کا کام کیاحالانکہ اسے33سال کا ایک عرصہ حکومت کے لئے میسر آیا اور یہ وہی زمانہ تھا جس میں ایک دوسری مشرقی قوم (جاپان) ترقی کر کے کہیں سے کہیں پہنچ گئی لیکن اس نے تعمیر کے بہترین زمانے کو جس کی ایک ایک ساعت قیمتی تھی جہالت میں کھو دیا۔اس کے باعث ترکی قوم کے بہترین دماغ برباد ہو گئے۔ اس کو جمال الدین افغانی جیسا بے نظیر آدمی میسر آیا لیکن اس نے ان کے علم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ۔تاریک خیال علماء اور مشائخ نے لوگوں کو دینی تعلیم سے بیزار کر دیا اور ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ اسلام ایک جامد مذہب ہے، زمانہ کے ساتھ حرکت کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں۔ اگرچہ 1908ء کے انقلاب نے سلطان عبد الحمید کی حکومت کو ختم کر دیا لیکن اب سلطنت کی عنان اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے جدید نظریات کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کے لئے سرکاری علماء کا گروہ اٹھایا جن کا سربراہ کوک الپ تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ اسلامی تعلیمات کی ایسے تعبیر کرے جس سے چند گنے چنے عقائد اور اخلاقی اصولوں کے سوا اسلام کی ہرچیز کو قابل تغیر ثابت کر کے مغربی سانچے میں ڈھالاجاسکے۔ ایک طرف ترکی قوم اس مقام تک پہنچ چکی تھی دوسری طرف ترکوں کے علماء اور مشائخ ساتویں صدی کی فضا سے نکلنے پر آمادہ نہ تھے۔وہ اب بھی کہہ رہے تھے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ یہی وہ وقت تھا کہ ترکی کا مسلمان ہر قسم کا علم حاصل کرنے سے بیگانہ ہوگیا کیونکہ جو مدرسوں اور خانقاہوںمیں دیا جا رہا تھا وہ ہر قسم کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرتا تھا اور جدید علوم حاصل کرنے سے اس وقت کے علماء اسے روکتے تھے کیونکہ وہ اسے کافروں کا علم اور آخرت کا خسران تصور کرتے تھے۔
افسوس کہ ترکی قوم کو ایسے برے وقت میں ایک بھی ایسا شخص میسر نہیں آیا جو قرآن میں بصیرت رکھنے والا اور اسلامی تعلیم کی حقیقی روح کو سمجھنے والا ہوتاجو زمانے کے متغیر حالات پر گہری نگاہ ڈال کر صحیح اجتہادی قوت سے کام لیتا اور اصول اسلام کو سامنے رکھ کر ایسا لٹریچر مہیا کر دیتا جس کی اساس کتاب و سنت پر ہوتی، جس کا مطالعہ اس جمود کو توڑ دیتا جو ان قرآن اور سنت رسولکے علم سے کلی جہالت رکھنے والے علماء اور مشائخ نے پیدا کیا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی قرآن کی تفسیریں لوگوں نے اس طرح پڑھنا چھوڑ دیں تھیں جیسے قرآن منسوخ ہوچکا ہے اور حضرت محمدکی رسالت ختم ہوگئی ہو۔بد قسمتی سے ہندوستان کا بہت تھوڑا حصہ اس وقت فتح ہوا جس وقت مسلمان ملک گیری اور حصول غنائم کے لئے علاقے فتح نہیں کیا کرتے تھے بلکہ خدا کے کلمہ کو دنیا میں بلند کرنے کے لئے سروں سے کفن باندھ کر نکلتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان پوری طرح اس علم سے آراستہ تھا جس کی اسا س کتاب و سنت پر تھی اور لوگ واقعی گود سے لحد تک علم حاصل کرنے کے خواہاں رہتے تھے لیکن بعد میں اسلامی فتوحات اشاعت اسلام کے بجائے توسیع مملکت کے سلسلے میں ہوئیں۔ اس کے باعث ہندوستان میں اسلامی تہذیب جڑنہ پکڑ سکی۔ شاہ جہاں نے اپنی بیوی کی یاد میں ایک بڑا تاج محل تو بنا دیا ۔ کاش اس مرض کی تحقیقات کے لئے ایک یونیورسٹی ہی قائم کر دیتا ۔انگریز نے آکر اگرتعلیم کی ترقی کے لئے کچھ کام ہو بھی رہا تھا تو اس کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے ٹرسٹ جن کے تحت مسلمانوں کے مدارس چلتے تھے ،ضبط کر لئے گئے اور ان کی آمدنی راجہ رام موہن رائے کے حوالے کردی کیونکہ ابتدا سے انگریزی حکومت کی پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے پامال کر کے ان کے اس قومی فخر و ناز کو کچل ڈالا جائے جو کہ ایک حاکم قوم کی حیثیت سے صدیوں تک ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا ہے۔ اس گرتی ہوئی قوم پر آخری ضرب وہ تھی جو 1875ء کے ہنگامے میں لگی۔ اس نے مسلمانوں کی صرف سیاسی قوت ہی کا خاتمہ نہ کیا بلکہ ان کی ہمتوں کو بھی توڑ دیا۔ ایسے میں سر سید احمد خان، سر آغا خان اور سید امیر علی نے قوم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ تمام مسلمانوں کی بقا انگریز کی اطاعت اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے اپنے بچوں کو جاہل رکھنا زیادہ مناسب سمجھا جس کے باعث مسلمانوں کی اکثریت علم سے بے بہرہ رہی اور وہی قوم جو دنیا میں علم پھیلانے کے لئے اٹھی تھی خود زوال بہ آمادہ ہوتی چلی گئی ۔ان میں فیصلے کی صلاحیت کمزور ہوتی چلی گئی۔ اس میں قصور اس نسل کا نہیں تھا جو ایسا کر رہی تھی بلکہ ان علماء و مشائخ کا تھا جنہوں نے اپنی رجعت پسندی اور زمانے کے ساتھ حرکت کرنے سے انکار نے حالات کو یہاںتک پہنچا دیا تھا۔تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن ضروری ہے کہ تعلیم ماضی کے ساتھ ساتھ حال کا بھی احاطہ کرے۔ زمانہ حال کے مختلف ملکوں اور قوموں کے نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن واقف ہونا ضروری ہے ورنہ تعلیم ناقص رہ جائے گی ۔اسلام نے تو تعلیم کے معاملے میں نہایت وسیع نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔