Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025

سبطِ رسول ﷺ ، سیدنا حسینؓ

کون سی ایسی شخصیت ہے جن کا والد ،والدہ ،نانا، نانی، دادی، دادا، خالہ ، پھوپھی، ماموں اور چچا سب کے سب اعلی ترین خاندان اور کائنات میں معزز اور محترم ہوں
* * * عبد المالک مجاہد۔ریاض* * *
سیدہ فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ کے دوسرے بیٹے سیدنا حسین بن علیؓ 3 شعبان 4ہجری کو مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بڑے بھائی سیدنا حسنؓ سے ایک سال سے بھی کم چھوٹے تھے۔ یہ قریشی تھے، ہاشمی تھے۔ سید ولد آدم حضرت محمد کے نہایت پیارے اور لاڈلے نواسے تھے۔ اس کائنات میں کوئی ایسی دوسری شخصیت نہیں جس کا نسب نامہ اتنا اعلی وارفع ہوجتنا سبط رسول اللہ کا ہے ۔
آپ اپنے ہاتھ میں کاغذ قلم پکڑیں اور پوری انسانیت کی تاریخ میں تلاش کریں کہ اس کائنات میں کون سی ایسی شخصیت ہے جن کا والد ،جن کی والدہ، جن کا نانا، جن کی نانی، جن کی دادی، جن کا دادا، جن کی خالہ ،جن کی پھوپھی، جن کا ماموں، جن کا چچا سب کے سب اعلی ترین خاندان، اعلی ترین نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور کائنات میں معزز اور محترم ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے قارئین اس عظیم گھرانے کے بارے میں یقینا بہت کچھ جانتے ہیں۔ ان سے محبت اور پیار کرتے ہیں مگر صرف یاد دہانی کے لئے، حافظہ کو دوبارہ لوٹانے کے لئے لکھے دیتا ہوں کہ سیدنا حسینؓ وہ شخصیت ہیں کہ ان کی والدہ سیدہ فاطمہ بتولؓ ہیں، والد محترم سیدنا علیؓ ہیں، ان کے نانا سرور کونین حضرت محمد ہیں، ان کی نانی سیدہ خدیجہ الکبریؓ ہیں، ان کی پھوپھی سیدہ ام ہانیؓ ہیں، ان کے ماموں جناب قاسمؓ، طیبؓ اور طاہرؓ ہیں اور ان کے چچا سیدنا جعفر طیارؓ ہیں۔ یہ وہ مقدس گھرانہ ہے جن کو پوری انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ عزت وشرف والا شمار کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے اولاداسماعیل میں سے بنو کنانہ کا انتخاب کیا، پھر بنو کنانہ میں سے قریش کو چن لیا، قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب فرمایا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب ہوا۔(صحیح مسلم)
اس سے اندازہ کرلیں کہ یہ کتنا مقدس اور محترم گھرانہ تھا۔ سیدنا حسینؓ پیداہوئے تو اللہ کے رسول کو بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور بچے کے منہ میں پہلی غذا کے طور پر اپنے لعاب دہن کے ساتھ کھجور ملا کرداخل فرمائی۔سیدنا علی ؓنے بچے کا نام حرب تجویز کیا مگر آپ نے بدل کر حسین رکھا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا۔ سر کے بال اتروائے اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کی۔سیدنا حسین بن علیؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ سیر اعلام النبلاء میں ہے کہ دونوں بھائی اپنے نانا کی تصویر تھے۔سیدنا حسن ؓسر سے سینہ تک اور سیدنا حسین سینہ سے قدموں تک آپ کی شکل وصورت کے مشابہ تھے۔ دونوں سید زادے دنیا میں ریحانۃ الرسول تھے۔ مدینہ طیبہ میں ان کے نانا محترم کے علاوہ بے شمار لوگ تھے جو ان سے شدید محبت کرتے تھے۔ مدینۃ الرسول میں آپ کی ازواج مطہرات تھیں جو ان سے محبت کرتیں، ان کی خالائیں تھیں ۔
دیگر رشتہ داروں کے علاوہ مدینہ طیبہ میں مہاجرین اور انصار تھے جو ان کی ایک ایک ادا پر دل وجان سے فدا تھے۔ سیدنا حسینؓ ان خوش قسمت نفوس میں سے تھے جن کی تربیت خود اللہ کے رسول نے فرمائی۔ ان کو ہمیشہ لقمہ حلال کھانے کو ملا۔ اس بات کی تصدیق اس حدیث نبوی سے ہوتی ہے جس کے مطابق مسجد نبوی میں صدقے کی کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ سیدنا حسینؓ ابھی چھوٹے تھے کہ ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ اللہ کے رسول اپنے ننھے سے نواسے کو دیکھ رہے تھے، آپ نے ان کے منہ میں انگلی ڈال کر اسے باہر پھینک دیا اور فرمایا ’’بخ بخ‘‘بیٹا اس کو نکال دو، تھوک دو ،ہم بنو ہاشم ہیں، ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ ان کی کتنی عمدہ تربیت آپ کے ہاتھوں میں ہوئی۔
اس گھرانے میں تواضع تھی ،غریبوں کے ساتھ محبت اور پیارتھا۔ہر چند کہ یہ بڑے لوگ تھے مگر ان کی تربیت کرنے والی وہ عظیم خاتون سیدہ فاطمہؓ تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پرکی کہ وہ نہایت متواضع شخصیت کے مالک بنے ۔ ان میں فخرو تکبر نام کو نہ تھا۔ اس عظیم خاتون کے تربیت یافتہ فرزند ارجمند سیدنا حسین ایک مرتبہ کچھ مساکین کے پاس سے گزرے جو اکٹھے زمین پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ نواسہ رسول کو دیکھا تو لجاجت سے عرض کی: حضرت ! تشریف لائیے ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔
سیدنا حسین اپنی سواری سے نیچے اترے اور یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے کہ اللہ تعالی تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ان کے ساتھ کھانا کھاکر فارغ ہوئے تو سبط رسول ان کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوئے ان سے فرماتے ہیں: ’’ میں تو آپ لوگوں کی دعوت قبول کرچکا، اب آپ لوگ بھی میری دعوت قبول کریں‘‘ ان کے لئے اس سے بڑھ کراعزاز و اکرام کی کیا بات ہوسکتی تھی۔ یک زبان ہو کر بولے : ہاں ہاں ہم آپ کی دعوت قبول کرتے ہیں ۔ سیدنا حسینؓ ان کوہمراہ لئے ہوئے گھرتشریف لائے اور پھر تاریخ نے آپ ؓکے یہ الفاظ اپنے سینے میں محفوظ کرلئے۔ اپنی زوجہ محترمہ رباب سے فرمایا : ’’ جو تم نے پس انداز کر رکھا ہے لے آؤ‘‘ اور پھر اس مال کو ان مساکین میں تقسیم کردیا۔
قارئین کرام: کون سا مسلمان ہوگا جو ان عظیم شخصیات سے محبت نہ کرتا ہوگا۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ تمام اہل سنت وجماعت نہ صرف سیدنا حسینؓ بلکہ تمام اہل بیت سے نہایت گہری اور سچی محبت کرتے ہیں۔اس میں کونسی شک کی بات ہے کہ اس گھرانے نے اسلام کے لئے بے حد قربانیاں دیں۔ سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اس کے لئے بے حد مصائب برداشت کئے۔
یہی وجہ ہے کہ خلفاء راشدین ان کے ساتھ بیحد عزت واحترام سے پیش آتے تھے۔اس لئے کہ ابتدا میں اسلام قبول کرنے والوں میں یا خاندان نبوت کے خوش قسمت لوگ تھے اور یا پھر فقراء ومساکین جنہیں نچلا طبقہ سمجھا جاتا ہے ۔ میں قارئین کی توجہ ایک واقعہ کی طرف دلا کر آگے بڑھوں گا۔ یہ واقعہ میں نے اپنی کتاب سنہرے اوراق میں لکھا ہے کہ یہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ کا دروازہ ہے ۔ یہاں پر سیدنا سہیل بن عمروؓ بعض دیگراہل ایمان سرداران قریش کے ساتھ جمع ہیں۔یہ سب لوگ ملاقات کے لئے امیرالمؤمنین کے بلاوے کے متنظر ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت صہیب رومیؓ، بلال بن رباحؓ اور بعض دیگر غلام جو غزوہ بدر میں شریک تھے، ملاقات کے لئے آگئے۔ حضرت عمر ؓنے اپنے دربان کو کہہ کر حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھیوں کو فوراً ملاقات کے لئے اندر بلوالیا۔ سراداران قریش اس بات پر سیخ پا ہوئے کہ ان غلاموں کو تو ملاقات کے لئے فوراً اجازت مل گئی جب کہ انہیں انتظار میں بٹھا دیا گیا ہے اور ان کی طرف نظر التفات بھی نہیں کی گئی۔
وہ ابھی اس قسم کی گفتگو کرہی رہے تھے کہ سہیل بن عمروؓ نے جو اپنے وقت کے نہایت دانا، سمجھ دار اور خطیب آدمی تھے، شرکاء کو مخاطب کیا اور فرمایا: ’’ اے قوم ! اللہ کی قسم! میں نے تمہارے چہروں پر غصے اور ناراضی کی علامتیں دیکھی ہیں۔ دیکھو! غصہ وناراضی عمر بن خطابؓ پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر کرو۔ قوم کو دعوتِ حق دی گئی اور تمہیں بھی یہ دعوت ملی مگر ان کمزور لوگوں نے اس دعوت کو فوراً قبول کرلیا جبکہ تم لوگوں نے تاخیر کی اورآج ان کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے۔جس فضیلت (ایمان) کے ذریعہ یہ فقراء تم لوگوں پر سبقت لے چکے ہیں اس کا فوت ہوجانا تمہارے اس دروازے میں پہلے داخل نہ ہونے سے زیادہ افسوس ناک ہے، جس میں داخلے کے لئے تم مقابلہ کررہے ہو‘‘ پھر فرمایا: ’’اے لوگو! یہ فقراء جس نعمت کے ذریعہ تم سے آگے نکل چکے ہیں وہ تمہیں معلوم ہے، اللہ کی قسم! جس چیز کی طرف وہ تم پر سبقت لے گئے ہیں، وہاں تک تمہاری رسائی تب ممکن ہے کہ تم جہاد سے خود کو مربوط کرلو، ممکن ہے اللہ تعالی تمہیں شہادت دے دے (اور تم بھی اعلی درجات کے مستحق بن سکو)‘‘۔ یہ کہہ کر حضرت سہیل بن عمرو ؓنے اپنے کپڑے جھاڑے اور چل دیئے۔ ذرا غور کریں کہ سیدناعمر فاروقؓ نے قریش کے ان بڑے سرداروں کے مقابلہ میں سیدنا بلالؓ اور ان جیسے فقیروں اور مساکین کو ترجیح دی ،کیا وہ سیدنا حسین ؓسے پیار نہ کرتے ہونگے۔فاروق اعظمؓ کے ہاں ان کا احترام کس درجہ کا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے روشن دور میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ تمام بدری صحابہ کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔
آپ ؓنے سیدنا حسینؓ اور سیدنا حسنؓ کے لئے بھی5،5 ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا حالانکہ غزوہ بدر کے موقع پر وہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ یہ قدر ومنزلت تھی سیدنا عمر فاروقؓ کے دل میں رسول اللہ کے نواسوں کے لئے، اور ان محبتوں کا اظہار ایک دن یوں ہوا کہ سیدنا عمر فاروق نے سیدنا حسینؓ سے کہا : میرے پیارے بیٹے !آپؓ ہمارے پاس ملاقات کے لئے کیوں نہیں آتے؟ چنانچہ ایک دن سیدنا حسینؓ، امیر المؤمنینؓ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ اس واقعہ کے راوی وہ خود ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں وہاں گیا تو سیدنا عمر فاروقؓ علیحدگی میں سیدنا امیر معاویہ ؓکے ساتھ بعض اہم امور پر مشورہ کرنے میں مصروف تھے۔ خود ان کا بیٹا عبداللہ بن عمرؓ بھی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہاں کھڑا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ اگر بیٹے کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تو مجھے کہاں ملے گی۔ فرماتے ہیں کہ میں واپس آگیا۔ کچھ وقت گزرا تو سیدنا عمر فاروقؓ سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا : بیٹے آپؓ آئے نہیں۔ عرض کی میں حاضر ہوا تھا مگر آپؓ سیدنا معاویہؓ کے ساتھ تخلیے میں مصروف تھے، میں نے دیکھا کہ آپ کا بیٹا عبداللہؓ دروازے پر منتظر تھا، اسے اجازت نہیں ملی تو میں بھی پلٹ آیا۔
یہ سن کر جو جواب سیدنا عمر فاروق نے ان کو دیا اسے ذرا غور سے پڑھیں۔ فرمایا : آپ ؓ میری ملاقات کے لئے اجازت حاصل کرنے کے عبد ا للہ سے زیادہ مستحق ہیں۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا: ہمارے سر پر جو عزت کا تاج ہے وہ اللہ تعالی کے فضل وکرم اور اس کے بعدخاندان نبوت کی برکت کی وجہ سے ہے۔
قارئین کرام: ذرا ان واقعات کو غور سے پڑھیں اور اندازہ کریں کہ خلفائے راشدین کے دلوں میں اہل بیت کے لئے کتنی محبت اور عقیدت تھی۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت کردوں کہ ہم اہل سنت وجماعت کے یہاں اہل بیت رسول انتہائی مکرم ومحترم اور بلند ترین درجے کی حامل شخصیات ہیں۔ اہل سنت وجماعت ان کے حقوق کا جو اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمائے ہیں تحفظ کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ ان سے محبت کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کی وصیت کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آپ نے غدیرخم کے دن ارشاد فرمائی تھی: ’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے (حقوق کے) بارے میں اللہ تعالی سے ڈراتا ہوں‘‘ اہل سنت وجماعت کا گروہ اس وصیت کے نفاذ میں سعادت مند قرار پاتا ہے۔
وہ نہ تو بعض انتہا پسند لوگوں کی طرح ہیں جو سیدنا حسینؓ اور سیدنا علی ؓکی محبت میں انتہائی غلو کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی ان لوگوں کی طرح جو اہل بیت سے بغض رکھتے ہیںاور اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔ قارئین کرام! ان حروف کے راقم کو الحمد للہ تما م اہل بیت کے ساتھ انتہا درجے کی محبت ہے۔ میں ان کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک انہیں کسی بھی قسم کی قولی یا فعلی اذیت دینا حرام ہے۔
میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ قیامت کے دن ہماراحشر ان اہل بیت کرام کے ساتھ ہومگر ساتھیو!ہم اس بات پر غور کیوں نہ کریں کہ ہمیں ان کی محبت کے لئے غیر مستند قصے کہانیوں کی کیا ضرورت ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو درست نہیں ۔ لوگ انہیں اپنی تقریروں میں، اپنی تحریروں میں بیان کرتے اور لکھتے ہیں۔ ہم یہ پوری دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ روشنی کے ان میناروں کی عظمت وشان کے اظہار کے لئے خود ساختہ واقعات کی کوئی ضرورت نہیں نہ ہی ان کی اس طرح شان بڑھتی ہے۔
یہ گھرانہ تو وہ مقدس اور مبارک گھرانہ ہے جن کی رفعت، بلندی اور شان اللہ تعالی نے خود بڑھا دی ہے۔میں جب بھی ان نفوس قدسیہ کی سیرت پر غور کرتا ہوں تو مجھے چشم تصور سے مدینہ طیبہ میں ننھے سے حسینؓ نظر آتے ہیں جن کے ہونٹوں کو سرور کونین چوما کرتے تھے۔ایک دن جب وہ اپنے بھائی حسنؓ کے ساتھ سرخ لباس پہنے مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو اللہ کے رسول خطبہ دے رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم گرتے پڑتے اپنے نانا محترم کی طرف آگے بڑھے تو آپ رہ نہ سکے۔ منبر سے نیچے اترے اور ان دونوں بھائیوں کو گود میں اٹھا کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے سچ فرمایا : ’’تمہارے اموال اور اولادیں آزمائش ہیں‘‘۔ میں نے اپنے بیٹوں کوگرتے پڑتے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہ کرسکا اورخطبہ درمیان میں منقطع کرکے منبر سے اترا اور ان دونوں کو گود میں اٹھالیا۔
اللہ کے رسول ان دونوں بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ نے اللہ کے حکم کے ساتھ ان دونوں کو ایک تمغہ عطا فرمایا کہ: ’’ حسن اور حسین دونوں بھائی جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ‘‘ یاد رہے کہ ان کی والدہ سیدہ فاطمہ’’ سیدۃ نساء اہل الجنۃ‘‘ ہیں۔
قارئین کرام! اہل بیت اور سیدنا حسینؓ کی ساری خوبیاں اور خصلتیں ایک طرف رکھ دیں،آپ کی زبان اقدس سے ان کے لئے نہ صرف جنت کی بشارت بلکہ جنت کے نوجوانوں کے سرداروالی بشارت کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو اکیلی یہ بشارت ہی ان کے محترم ، باوقار، باعزت اور اعلی وافضل ہونے کے لئے کافی ہے۔

شیئر: