سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کی اکثریت کو عمران خان اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں
* * * سید شکیل احمد* * *
پاکستان میں سیا سی جما عتو ں نے انتخابی جو ڑ تو ڑ کی تلا ش شر وع کر دی۔ تنہا فضاؤں میں رہنے والے عمران خان کو بھی ایم کیو ایم میں گن نظر آنے لگے ہیں ۔ وہ دونو ں ایک ہی کشتی کے سوار بن گئے ۔ اب تحریک انصاف کی طر ح وہ بھی محب وطن جما عت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر نے میں کا میا ب ہو گئی تاہم بلا ول کے کنٹینرپر سوار ہو نے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ عمر ان خان کئی اپو زیشن جما عتو ں کو حکمر ان جما عت کے قریب کر نے میں کا میاب بھی ہوگئے ۔ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن پی پی کی جمالی سیا ست کے مقابلے میں عمران خا ں کی جلا لی سیا ست کو کہاں پنپنے دیں گے ۔ اگر چہ مسلم لیگ ن اور پی پی میں انتخابی اتحادی ممکن نہیں مگر دونو ں کے مفادات اسی میں ہے کہ تحریک انصاف کو آئندہ انتخا بات میں شکست ہی کا سامنا پڑ ے ۔عمرانی سیا ست کا حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جو یہ فرما تے نہیں تھکتے کہ جماعت کا اورتحریک کا اتحا د سیکر یٹریٹ کے گیٹ تک ہے تاہم انھو ں نے کبھی یہ وضاحت نہیں کی یہ اتحاد گیٹ کے اندر کی طر ف ہے یا گیٹ کے باہر کے رخ ہے ۔ تحریک انصاف کا اجلا س ملک بھر کے کئی شہر و ں میں بیک وقت منعقد کیا گیا۔
اسکے بعد جو خبر آئی اس میں بتایا گیاکہ بہت سارے اہم امو ر کا جائزہ لیا گیا ۔فیصلہ کیا گیا کہ نو از شریف کوکیو ں نکالا گیا اس بارے میں عوام میں آگاہی تحریک شروع کی جا ئیگی ۔ تحریک انصاف میں تحریکیں کو ٹ کو ٹ کر بھری ہوئی ہیں، تحریک کے رہنماؤں کا کوئی لمحہ بغیر تحریک کے نہیں گزرتا ۔ہنوز تحریک انصاف قائد حزب اختلا ف کی تبدیلی کی تحریک میں جکڑی ہو ئی ہے ، تو ساتھ ہی وقت سے پہلے انتخابات کی تحریک شر وع کر دی ،اس کے ساتھ ہی اسحا ق ڈار ہٹاؤ مہم کا آغا ز کر دیا گیا ، سو بے چینی کا عالم دوچند سے بھی بڑ ھا ہو ا ہے ۔ کیا تحریک انصا ف قائد حز ب اختلا ف بدل پا ئے گی لیکن اس سے پہلے یہ سوال پید ا ہو ا ہے کہ فرینڈلی اپو زیشن کا ساڑھے 4 ماہ بھگتانے کے بعد اب 10,8 ما ہ کا عام انتخابات میں وقفہ رہ جانے پر شب دیجو ر میں اندھے کی طرح دور کی عمر ان خان کو قائد حزب اختلا ف تبدل کر نے کی کیا سوجھی۔
جن مقاصد کیلئے مہم جو ہیں ان میں ان کا خوا ب پو را ہو تا نظر نہیں آتا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ عام انتخابات کے اعلا ن کے ساتھ ہی عبوری حکومت کا مر حلہ طے کیا جا نا ہے ۔یہ مر حلہ یعنی عبوری دور کے وزیر اعظم کی نا مزدگی قائد حزب اختلا ف اور قائد اختلا ف کی باہمی مشورے سے ہو گی چنا نچہ فیصلہ مسلم لیگ ن اور پی پی کے ہا تھ میں اور عمر ان خان یہ فیصلہ اپنے ہا تھ میں لینے کے آرزو مند ہیں ۔اس کیلئے انھو ں نے لا بی شروع کی ہے ۔ اس بارے میں جو ڑ تو ڑ کی حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلا ف کی تعدا د 122ارکا ن پر مشتمل ہے ۔ آئندہ انتخابات تک مزید کاامکا ن ہیں ۔ اس وقت مسلم لیگ ن اچھی پو زیشن میںہے او ریہ ان کے بالغ پن کا اظہا ر بھی ہے کہ بیک وقت وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں بھی حکمر ان جماعت بھی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اقامہ فیصلے کے بعد سے اپو زیشن کے کر دار کو بھی اپنے ہا تھ میں لے چکی ہے ۔اس وقت نواز شریف کے سوا کوئی اپو زیشن لیڈر نظر نہیں آرہا ،تما م اپو زیشن جما عتیں بند گلی میں کھڑی ہیں ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا اتحاد فطری ہے ۔
یہ بات کسی حد تک ما نی جا سکتی ہے کہ ایم کیو ایم متوسط طبقہ کی جما عت ہے ۔ تحریک انصاف بھی گلی کو چو ں میں وجو د رکھتی ہے ۔ یہ مماثلت تو ہے ۔تحریک انصاف جہا نگیر ترین ، اسد عمر ، اور شاہ محمد قریشی جیسے سرمایہ دارو ں اور وڈیر و ں کی بیساکھیو ں پر کھڑی نظر آرہی ہے ۔علا وہ ازیں پو زیشن لیڈر کی تبدیلی کی کا وشو ں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو پہلا ضعف یہ پہنچا کہ ایم کیو ایم کی قربت نے عمر ان خان کی سیا ست کو بڑا دھچکا دیا کیو نکہ مفاد ات کی جنگ میں وہ تحریک انصاف کی شہید خاتون زہر ہ کے خون کو بھول گئے ۔ وہ یہ بھی بھلا بیٹھے کہ خود بھاری بھاری فائلیں لے کر لند ن گئے تھے تاکہ ایم کیو ایم پر لند ن میں مقدمہ چلے اور اس پر پا بندی لگ جا ئے ۔ ایم کیو ایم ان کے مطا بق دہشتگرد تنظیم ہے، آج اس کی گو د لے لیا ۔ دوسرے یہ کہ اس مہم میں انھو ں نے اپو زیشن کو قومی اسمبلی میں تقسیم کر ڈالا جس کا فائد ہ حکمران جماعت اٹھا رہی ہے ۔ تیسرے یہ کہ خود تحریک انصاف میں دراڑیں نما یا ں تر گئیں ۔ پی ٹی آئی 2واضح دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔گو کہ تحریک انصاف پہلے ہی دھڑے بندی کا شکا ر تھی مگر اب بات مزید کھل گئی۔ ایک دھڑا شاہ محمد قریشی کا واضح ہوگیا ہے تو دوسراجہا نگیر تر ین چنانچہ انھو ں نے اپو زیشن لیڈر کیلئے شاہ محمد قریشی کی نا مزدگی کو صاف طور پر تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا۔ ان مضبوط دھڑے بندیو ں کی وجہ سے تحریک کو انتخابات میں کا فی مشکلات کا سامنا کر نا پڑے گا ۔ جما عت اسلامی کے4 ارکان قائد حزب اختلا ف کی تبدیلی کے حامی نہیں ۔
مسلم لیگ ق کے سربراہ نے تو کھر ا سا جو اب دیدیا ہے اور کہا کہ امیدوار باہمی مشورے سے نا مزد کیا جا تا تو بہتر ہو تا مگر امید وار نا مزد کرنے کے بعدآؤ ووٹ دے دو نامنا سب ہے ۔ ان اعدا د وشمار کی روشنی میں پی پی کے ووٹو ں کی تعدا د 56ہو جا تی ہے ۔پی ٹی آئی کے 32ارکان ہیں ۔عائشہ گلالئی ، مسرت زیب ، ناصر خٹک اور سراج محمد خان کو پارٹی سے اختلا ف ہے ۔ گلزار خان دنیا سے انتقال کر گئے ،گویا عمران خان کے پاس کل 27 ارکان بچتے ہیں۔ ایک آزاد رکن کے پی ٹی آئی کی طرف مر اجعت فرما نے سے28 ہو جا تی ہے ۔ شیخ رشید ، جمشید دستی اور زین الہٰی کے ووٹ ملا کر32 ووٹ بن جا تے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے24 ارکا ن میں سے 2 ارکان کی غیر مو جو دگی کی وجہ سے تعداد22 ہے ۔
اس طرح مل ملا کر عمر ان خان کے پاس خورشید شاہ کے 56کے مقابلے میں 55ووٹ ہیں ، تاہم طاقت کا توازن ابھی بگڑ ا نہیں کیو نکہ فاٹا کے6 ارکا ن کے ہا تھ فیصلہ کن طاقت آگئی ہے ۔ کیا عمر ان خان فاٹا کے ووٹ حاصل کرنے میں کا میاب ہو جائیں گے مگر یہ ممکن اس لئے بھی نہیں ہے کہ قائد حزب اختلا ف قومی اسمبلی کا اسپیکر اس کو قرار دیتا ہے جو ایو ان میں سنگل سب سے بڑی اپو ز یشن جما عت ہو چنا نچہ ایا ز صادق اس اختیا ر کو استعمال کر یں گے ۔ خور شید شاہ کی تقرری بھی اسی بنیا د پر ہوئی تھی ۔ عبوری حکومت کے علا وہ ایک گورکھ دھند ا اور بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ نیب کے چیئر مین کی تقرری ہونا ہے جس کیلئے نا مزدگی حزب اختلا ف اور حزب اقتدا کی مشورہ سے ہو نا ہے چنا نچہ اس کو بھی عمر ان خان حاصل کر نا چاہتے ہیں ۔ آئینی طو ر پر نیب کے چیئرمین کی تقرری صدرمملکت کے حکم سے ہوتی ہے ۔وہ اس امر کے پا بند نہیں کہ مشورہ قبول کر یں چنا نچہ وہ مشورہ کو نظر انداز کر کے براہ راست تقرری کا پر وانہ جا ری کر سکتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ درپر دہ مسلم لیگ ن کو اس امر کی حما یت حاصل ہو گی کہ ان تما م حالات میں عمر ان خان’’ نو از شریف کو کیو ں نکالا ‘‘مہم جو چلا ئیںگے۔ اس کا مقصد وقت سے پہلے انتخابات کر انے کی مہم ہے ۔ اس کیوجہ یہ ہے کہ وقت سے پہلے انتخابات کو عوام نے قبول نہیں کیا چنانچہ براہ راست اس مہم کو آگے بڑھانے کی بجا ئے آگاہی مہم کے نا م سے بڑھناچاہتے ہیں ۔سینیٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ظاہری پو زیشن میں ان انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہو جا ئیگی ۔ بعض قوتیں جن کا عمر ان خان کا ساتھ رہا ہے وہ نہیں چاہتیں کہ مسلم لیگ ن کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہو ۔علا وہ ازیں عمران خان خود بھی اس اکثریت کے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔انہیں گمان ہے کہ آئند ہ حکومت کیلئے وہ ہاتھ ما رجائیںگے مگر سینیٹ میں ان کے لیے مسلم لیگ کی بھاری اکثریت دردِ سر بنی رہیگی جس طر ح انھو ں نے گزشتہ انتخابات کے فوری بعد سے نو از شریف کو حکومت کر نے میں دشواریا ں پید ا کیں اسی طرح کاحشر مسلم لیگ کی جانب سے بپاکیا جا سکتا ہے ۔ جہا ں تک شاہ محمد قریشی کی نا مزدگی کا تعلق ہے اس بارے میں عمر ان خان کا مو قف ہے کہ سیا ست میں شاہ محمد قریشی ان سے بڑھ کر ہیں۔ یہ بات تو دل کو لگتی ہے کہ کس طرح جا وید ہا شمی کو تحریک سے چلتا کیا یہ تجر بہ کا ر ہی کر سکتا تھا۔عمر ان خان کی ایک بے بدل لیڈر سے خلا صی اتنی آسانی سے ہو نے والی نہیں تھی ۔