مشعر الحرام ، جہاں اللہ تعالی کو کثرت سے یاد کیا جائے
مسجد مشعر حرام کا رقبہ6ہزارمربع میٹر ہے جس میں 8ہزار افرا نماز ادا کرسکتے ہیں، چمکدار پتھر سے اسے آراستہ کیا گیا ہے
مشعر الحرام کے معنیٰ مقدس نشان کے ہوتے ہیں۔مشعرالحرام مزدلفہ کی2پہاڑیوں کے درمیان واقع بلند مقام جبل قزح کو بھی کہتے ہیں۔ پورے مزدلفہ کو بھی مشعر الحرام کہا جاتا ہے۔
مشعر الحرام مسجد مزدلفہ میں واقع ہے جس کا رقبہ تقریباًایک ہزار مربع میٹر تھا،معمولی درجے کی عمارت تھی۔کئی مرتبہ اسے تعمیر کیا گیا۔ آخری توسیع سعودی حکومت نے 1395ھ میں کرائی۔سعودی عہد میں اس مسجد کی تعمیر شاندار طریقے سے ہوئی۔ اس کا سہرا وزارت حج کے سرجاتا ہے۔ 1395ھ میں قائم کردہ یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا حسین ترین نمونہ ہے۔تازہ توسیع کے بعد مشعر الحرام کی مسجد کا رقبہ 2 ہزار مربع میٹر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ مسجد2منزلہ ہے، اس کی دیواروں کی اونچائی8،8میٹر کے لگ بھگ ہے اس کی بیرونی دیواریں گرینائڈ پتھروںسے آراستہ ہیں۔مسجد کے 2 مینارے اس کے بیرونی ستونوں میں بنائے گئے ہیں۔ مینارے 40،40میٹر اونچے ہیں، ان میناروں پرتقریباً50لاکھ ریال لاگت آئی ہے۔ مسجد کے باہر روشنی کا مینارہ ہے جہاں بہت سارے وضوگھر اورغسل خانے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مسجد کے قریب حاجیوں کیلئے ایک اسپتال بھی بنایا گیاہے۔
اب یہ 6000مربع میٹر میں بنی ہوئی ہے۔ اس میں 8ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ چمکدار پتھر سے اسے آراستہ کیا گیا ہے۔ مسجد کی چھت ستونوں پر رکھی گئی ہے۔ ہر ستون کا قطرتقریباً2میٹر ہے۔ ہرستون کو 8چھوٹے چھوٹے ستونوں سے آراستہ کیا گیا ہے اس انداز ِتعمیر نے مسجد کی عمارت کو بڑا پرکشش بنا دیا، مسجد کا کوئی صحن نہیں، اس کا تدارک روشن دانوں سے کیا گیا ہے۔ مغربی دیوار کے وسط میں ایک حصے کو نمایاں کیا گیا ہے، یہ مسجد کی محراب پر مشتمل ہے۔
مشعر الحرام کی مسجد اسلام کے ابتدائی زمانے سے ہے ۔بعض مورخین نے ان الفاظ میں اس کا احاطہ کیا ہے کہ مزدلفہ میں مسجد کا احاطہ ہے۔ سیاح المقدسی صرف نماز ادا کرنے کی جگہ بتاتا ہے اور ایک اجتماعی چشمے اور ایک مینارکا ذکر کر تا ہے۔ الازرقی نے تفصیل سے مسجد کا تذکرہ کیا ہے۔بعض امراء اور سلاطین نے مختلف اوقات میں مسجد کی تعمیر و تجدید کا اہتمام کیا۔ آخری بار مشعر الحرام کی مسجد 1092ھ میں تعمیر کی گئی تھی،اُس وقت بھی اس کا محض احاطہ بنایا گیا تھا۔
مزدلفہ مشاعر مقدسہ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ عرفات اس کے جنوب مشرق اورمنیٰ شمال مغرب میں ہے۔ شمال جنوب اور مشرق 3 جہتوں سے مزدلفہ کو اونچی اونچی پہاڑیوں نے آغوش میں لے رکھا ہے۔ مزدلفہ کے مشرق میں 2پہاڑ ہیں ،یہ دونوں عرفات مزدلفہ کے درمیان واقع ہیں۔ ان کے درمیان2تنگ وادیاں ہیں ،ان دونوں راستوںسے عرفات اور مزدلفہ کے راستے نکلتے ہیں۔ مزدلفہ کے مغرب میں وادیٔ محسر ہے جہاں اصحاب فیل پر آسمانی عذاب نازل ہوا تھا۔ یہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان حدفاصل ہے، اس کا فاصلہ 545گز کے قریب ہے۔ سعودی حکومت نے وادیٔ محسر کے شرو ع میں بورڈ لگا کر نشاندہی کررکھی ہے کہ یہ علاقہ عذابِ اصحابِ فیل ہے،اس وادی سے تیزی سے گزرجانے کا رسول اللہ کاحکم ہے، اس کو وادی النار بھی کہا جاتا ہے۔
مزدلفہ میں وقوف کا رقبہ 993ہیکٹر ہے، اس کا2تہائی سے زیادہ حصہ ہموار ہے۔ مزدلفہ کا مغربی حصہ قدرے اونچا اور پہاڑی نما ہے۔ منیٰ اور مزدلفہ میں مواصلاتی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے اس کا بھی بیشتر حصہ ہموار کردیا گیا ہے۔ مکہ مکرمہ کے قاضی الفاسی (م 832ھ)نے 811ھ میں مزدلفہ میں جبل قزح کے اوپر ایک بڑے سے گول گنبد یا برج کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ مینار کی طرح مربع عمارت تھی۔ حاجیوں کی رہنمائی کیلئے اس پر روشنی کی جاتی تھی۔ خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں یہاں شمعیں روشن کی جاتی تھیںاس کے بعد بڑے بڑے چراغ جلائے جاتے رہے، بعد ازاں ان کی جگہ چھوٹے چراغوں نے لے لی۔ اب سعودی حکومت نے بجلی کا شاندار بندوبست کیا ہے۔
مزدلفہ میں اسٹریٹ لائٹ کے علاوہ سرچ لائٹ کا بھی اہتمام کیا گیاہے ۔ پیدل چلنے والوں کیلئے الگ جبکہ کاروں اور بسوں کیلئے مستقل راستے بنائے گئے ہیں۔ پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جگہ جگہ پانی ذخیرہ کردیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر طہارتخانے اور وضوخانے بھی کثیرتعداد میں بنائے گئے ہیں۔
مزدلفہ مقامات حج میں حق پرستوں کی ایک مختصر منزل ہے جہاں حاجی عرفات سے واپس ہوتے ہوئے9و اور10ویں ذی الحجہ کی درمیانی رات پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھی پڑھتے ہیں ۔ مغر ب کی نماز کو عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر ایک ہی وقت میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ نماز ایک اذان اور 2اقامت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔
حجاج کرام 9ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد میدان عرفات سے مزدلفہ کیلئے کوچ کرتے ہیں۔ 9اور 10ذی الحجہ کی درمیانی رات مزدلفہ میں بسر کرتے ہیں۔وہاں اللہ کی یاد، عبادت اور قیام میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ حق پرستوں کا ایک شبینہ کیمپ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اس مقام کو المشعر الحرام کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا حکم دیا گیاہے۔سورہ بقرہ کی آیت 198میں المشعر الحرام کا ذکر کیا گیا ہے۔ مفہوم یہ ہے ’’جب تم عرفات سے واپس ہونے لگوتومشعرالحرام(یعنی مزدلفہ)میں اللہ کا ذکر کرواور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ گمراہ تھے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں عرفات سے واپس ہوتے ہوئے یہ تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی یاد اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے، زمانۂ جاہلیت کی پیروی نہ کی جائے۔ یاد رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ مزدلفہ پہنچتے تو وہاں الاؤ روشن کرتے،قصیدہ خوانی کرتے، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسیں منعقد کیا کرتے۔ قرآن نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے اور اللہ کی تسبیح و تحلیل کا حکم دیا ہے۔
مزدلفہ کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مزدلفہ کے معنیٰ چونکہ اجتماع اور قربت حاصل کرنے کے آتے ہیں اور یہاں مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے لہذا اسی تناظر میں
اسے مزدلفہ کہا جاتا ہے۔