Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025

بہتر ہے امریکہ غلطیاں نہ دہرائے

دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنی غیر جانبدارانہ پالیسیاں بنانے میں کامیاب ہوجائیگا
* * * سید شکیل احمد * * *
امریکہ کی نئی افغان پا لیسی کے اعلا ن سے جہا ں پا کستان کے بارے میں امریکہ کے مستقبل کے خدو خال عیا ں ہوئے ہیں وہا ں پاکستان کی قومی سلا متی کمیٹی کے فیصلو ں سے جو اب آں غزل کے طورپر پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے بھی نکا ت نکھر کر سامنے آئے ہیں جس سے یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ جنوبی ایشیا اب بدل گیا ہے جہا ں اب امریکہ کو صرف ایک ملک کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان جس کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ تنہا ئی کا شکا ر ہو چکا ہے امریکہ کی افغان پا لیسی کے اعلا ن کے ساتھ یہ بھی ثابت ہو ا کہ اس کو نہ صرف جوہر ی طا قتوں چین اور رو س کی حمایت حاصل ہے بلکہ دیگر پڑوسی اس معاملے میں اس کے ساتھ ہیں۔ خاص طورپر ایران جس کو انقلاب ایر ان کے وقت سے پاکستان سے دور کر نے کی سعی کی جا رہی تھی، اس نے بھی اس پالیسی پر اپنا جو ردعمل دیا ہے وہ پاکستان کے حق میں جا تا ہے ۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس لہجے میں افغان پالیسی کے ذریعے پاکستان کو للکار اہے وہ اس امر کی غمازی کر تا ہے کہ امریکی صدر سے بھول چوک ہو گئی۔
وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ایک مضبوط سول حکومت کو جھٹکا دے کر نا توا ں حکومت فوجی آمر کی طر ح ایک ہی دھمکی میں لیٹ جائے گی اور نا ئن الیو ن کی طرح وارے نیا رے ہو جا ئیں گے ، کمزور سہی مگر عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت نے جس ڈپلومیسی سے کا م لیا اس نے یہ ثابت کردیا کہ ایک آمر کی حکمر انی اور ایک جمہو ری نظام میں کیا فرق ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کے کسی عہدے دار نے فوری طور پر کوئی رد عمل نہیں دیا حالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ پا کستان کا امریکہ کے بارے میں کیا ردعمل ہو ا کرتا ہے۔ عمران خان سب سے پہلے غیر سر کا ری شخصیت تھے جنہو ں نے پا کستان کے عوام کا من پسند بیان داغ دیا۔ وہ تو اس مو ڈ میں رہتے ہیں کہ پا پو لر بیان بازی جاری رکھیں تاکہ ان کی مقبولیت کا ستا رہ دمکتا رہے۔ ویسے بھی ان پر کوئی سنجید ہ ذمہ داری ہے نہیں اس لئے ان کے لب آزاد رہتے ہیں۔امریکی صدر کی جھاڑ کوئی 2 ملکو ں کے درمیا ن تعلقات کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ عالمی معاملہ ہے اور اسکے اثرات نہ صرف جنو بی ایشیا پر مر تب ہو ںگے بلکہ ساری دنیا میں محسو س کئے جائیں گے اسلئے سر کا ری طو رپر جو بھی مو قف قائم کر نا چاہیے تھا ۔اس پر کافی سوچ بچار کی ضرورت تھی جو پا کستان نے نبھائی اور اپنا بہت واضح ردعمل حکومت پاکستان نے ظاہر کردیا جس پر اب امریکہ کو اپنے صدر کے پاکستان کے بارے میں برہنہ خطا ب اور پالیسی پر افسو س ہورہاہوگا اور فوجی آمر مشرف کی یا د ستا رہی ہو گی۔ امریکہ سے یہ بھول چوک ہو گئی کہ پاکستان اب نائن الیون والا پا کستان نہیں اور نہ اس خطے کے حالات اس زمانے جیسے ہیں۔
اس امر کا احساس امریکہ کو چین اور روس کی زبان سے ہوچلا ہے ۔ سی پیک منصوبے کا اگر جا ئزہ لیا جا ئے تو جہا ں اس خطے کے ممالک کو فائدہ ہے اسی طر ح اس منصوبے سے امریکہ بھی فائدہ ہے اور وہ چین ، روس اور وسطیٰ ایشیا تک بہتر طو رپر رسائی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کی سی پیک سے دشمنی اسلئے ہے کہ اس سے خطے کے ممالک میں اقتصاد ی اور معاشی انقلا ب آجا ئیگا جو ہند اور امریکہ دونو ں کو پسند نہیں ۔ ما ضی میں پا کستان نے ایک عظیم جوہر ی طا قت ہونے کے باوجو د امریکہ کے جا اور بے جا نا ز و نخر ے بر داشت کئے ہیں اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ معاشی اور اقتصادی پسماندگی کی وجہ سے پا کستان امریکہ کی اقتصادی غلا می کا شکار ہو گیا تھا ، اب اسکے ہا تھ پیر کھلتے نظر آرہے ہیں اور پاکستان میں کسی فوجی آمر کے در آنے کے مکانا ت بھی منفی محسو س کئے جا تے ہیں۔
سی پیک کا منصوبہ نہ صرف پاکستا ن کو اقتصادی ، معاشی ، تعلیمی ، اور دوسرے اہم ترین شعبوں میں خود کفیل کر دے گا بلکہ وہ مضبوط وتوانا پا ؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔ اسکے علا وہ گو ادر کی وجہ سے جہا ں پاکستان سمیت خطے کے ممالک میںترقی اور خوشحالی عود کرجائیگی وہاں پاکستان کا دفاعی نظام مضبوط اور گرفت میں آجا ئے گا ۔ اسی بناء پر پنجا ب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بیان دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امر یکہ سے کہہ دیا جا ئے :بس شکر یہ !اب ہمیں آپ کی امدا د کی ضرورت نہیں ۔ اس تما م پس منظر کے باوجو د یہ دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان اپنی غیر جانبدارانہ خارجہ پا لیسی بنانے میں کا میا ب ہو جا ئیگا؟ ابھی تک تو یہ محسو س کیا جا رہاہے کہ پا کستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی یکسوئی نہیں اور وہ امریکہ اور اسکے اتحادیو ں کے تابع رہنے پرمجبور رہتی ہے ۔با ت کسی حد تک درست ہے لیکن خارجہ پالیسی میںجو بھی تبدیلی لائی جائے اُس میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کے دائرہ اختیا ر سے باہر ہو نے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور ان سے نمٹنے کی کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے؟ ایشیا میں جو نئے حالات جنم لے رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کو ایک خوش گوار اور بااعتما د ما حول کی فضا ملنے کے مکا نات واضح ہو تے جارہے ہیں۔ حالات کی تبدیلی میںپاکستان کو ثابت قدم رہنا ہو گا کیو نکہ جن ساتھیو ںکا ہا تھ بڑھ رہا ہے ماضی کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ مضبوط دوستی کی علا مت ہیں ۔
روس نے بھی اپنے دوستو ں سے خوب نبھائی ہے۔ ہند اس کا خود گواہ ہے جو آج کل پاکستان کی طرف روسی جھکا ؤ کو دیکھ کر جلا پے میں روس کیخلا ف مہم جوئی میں مشغول ہے۔ دن رات ہندوستانی میڈیا پاکستان اور روس کے بڑھتے ہو ئے تعاون پر سیخ پا ہو کر روس کو جلی بھنی اور کڑوی کسیلی سنا تا ہے۔جب ہند اور روس کی دوستی اٹوٹ قرار پاتی تھی پاکستان نے کبھی اس دوستی پر 3 حرف نہیں بھیجے حالانکہ یہ کھلی کتا ب کی طرح ہے کہ روس اور ہندوستان کے درمیان معاہدۂ دوستی کے بعد ہی ہند نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کو مہمیز کیا تھا ۔ پاکستان کی قومی سلا متی کمیٹی کے فیصلو ں اور وزارت خارجہ کے مو قف کے بعد سے ہنو ز امریکہ کی طر ف سے ردعمل آنا باقی ہے تاہم امریکہ کا کیا رویہ ہو سکتا ہے اس پر مبصرین کی رائے یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے ردعمل کو ٹھنڈے پیٹو ں نہیں پی پا ئے گا اور ٹرمپ کی دھمکی کے انداز کے طورپر قدم بڑھا ئے گا تاہم پاکستان کو بہت ہوشیا ر رہنے کی ضرورت ہے کہ جمعہ کو افغانستا ن کے صوبہ قند ھا ر کے ضلع شرابک میں ایک اہم واقعہ ہوا جہا ں مبینہ دہشت گردوں کے ایک ٹھکا نے میں شام6 بجے ایک زور دار دھما کہ ہو جس کے نتیجے میں10 افر اد ہلا ک ہو گئے ۔ہلاکتو ں کی سرکا ری اطلا عات ہے۔
افغان پولیس افسر کے مطابق اس واقعہ میں جو افرا د ہلا ک ہو ئے ان میں2 عرب باشند ے ایک مقامی باشند ہ 7 غیر ملکی باشندے ہیں ، جن کو پا کستانی ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑی خبر ہے جو سرکا ری ذرائع سے جا ری ہوئی ۔ امریکہ اور افغانستان بار بار پا کستان پر الزام لگا تے ہیں کہ پا کستان دہشتگردو ں کا معاونِ کا رہے اور پاکستان نے دہشتگردوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیںفراہم کررکھی ہے ۔افغان سرکا ر کی جانب سے قندھا ر دھماکے نے ثابت کر دیا کہ جو الزام پاکستان پر لگا ئے جاتے ہیں، وہ خود ان پر صادق ہیں ۔ہلا ک ہو نے والو ں میں 9 افراد غیر ملکی بتائے گئے ہیں۔ ان میں سے2کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ عرب باشندے تھے اور 7 افراد کے بارے میں کہاگیا ہے کہ وہ پاکستانی تھے ، نہ تو پاکستانیوں ، نہ عرب باشندو ں اور نہ ہی افغان باشندے کی شنا خت ظاہر کی گئی اوریہ لوگ وہا ںکیو ں ٹھکانہ بنائے ہو ئے تھے؟ اگر پا کستانی باشندے تھے تو صاف ظاہر ہے کہ افغانستان میں پاکستان کیخلاف دہشتگردوں نے پنا ہ لے رکھی ہے اور وہ پاکستان میں دہشتگردی کی سازشیں کر تے ہیں۔ اب بھی کسی بڑی دہشتگردی کی تیا ری میں مصروف ہو نگے اور جس افغان باشند ے کی مو جو دگی کا ذکر کیا گیا ہے وہ کون تھا ؟ یہ بھی اپنی جگہ سوال ہے ۔ امریکہ افغانستان میں موجو د ہے۔
اس کا ذمہ ہے کہ وہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکا نو ں کو ختم کر نے میں کر دار ادا کر ے۔ جہا ں واقعہ رونما ہو ا وہ دہشت گرووںکاٹھکا نہ تھا اور یہ بات کہنے کی نہیں کہ یہ مبینہ دہشتگرد افغانستان میں اپنے ٹھکانے پر بیٹھ کر کہا ں دہشتگردی کرنے کی تیا ری کر رہے تھے ۔اس واقعہ سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دہشتگردوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں اور انکے مدد گار کو ن ہیں یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ جہا ں تک ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکیو ں کا سوال ہے تویہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدرنے دھمکی کے مضمر ارت کا اندازہ نہیں لگا یا اور اپنے جنرلز کے جھانسے میں رہے کہ ماضی میں جب امریکہ نے پاکستان کے ایک فوجی آمر کو دھمکی دی تو جس طرح وہ ہا تھ پاؤں پھیلا کر چت ہوگئے تھے شاید اس مرتبہ بھی ایسا ہو کیو نکہ اس مرتبہ مضبوط سیا سی قیا دت کی جگہ ہلکی پھلکی سیاسی حکومت ہے مگر یہ بھول تھی کہ ٹیم اُسی مضبوط سیا سی قیادت کی ہے جس میں اسی کی طر ح فیصلہ کرنے کی صلا حیت ہے چنانچہ پاکستان کا ردعمل گو کہ ورطہ حیر ت میں ڈالنے والا ہے تاہم ہے برجستہ اور درست بھی چنا نچہ اب امریکہ کو پا کستان کے بارے میں اپنے رویئے پر نظر ثانی کرنا پڑ ے گی ۔ یہ تسلیم کر نا پڑ یگا کہ جنو بی ایشیا کی فضااس کیلئے مکدر ہے۔ اپنے لئے اس کو خوش گوار بنا نے کیلئے اگروہی غلطی دہر ائی جو عموما ً امریکہ دہر ایا کر تا ہے کہ ایک پالیسی میں ناکامی کے بعد اسی پر انی پالیسی کو نیا روپ دیکر پر انی پالیسی پر گامزن ہو جاتا ہے اور پھر ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اب کے ایسا نہیں چلے گا۔

شیئر: