Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 05 جولائی ، 2025 | Saturday , July   05, 2025
ہفتہ ، 05 جولائی ، 2025 | Saturday , July   05, 2025
تازہ ترین

مکہ مکرمہ میں رسول اکرمﷺ کا مسکن ، دار خدیجہؓ

 
 دار خدیجہ کے 2نام مشہور ہیں۔ ایک نام توام المؤمنین حضرت خدیجہؓ    سے منسوب ہے جو  رسول اللہ  کی شریک حیات،  ہمساز،  ہمراز اور  دم ساز تھیں۔  وہی ام المؤمنین جنہیں سب سے پہلے اس گھر میں  پیغمبر اعظم و  آخر محمد مصطفی  غار حرا سے  پہنچ کر پہلی وحی کے نزول ،نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کی  اطلاع دی تھی۔  وہ  وحی جو’’ اقرا‘‘ سے شروع ہوئی تھی۔  
 
یہی وہ گھر ہے جہاں  رسول اللہ  کو جان چھڑکنے  والی رفیق حیات نے  اس وقت جب  وہ رسالت کی  اہم ذمہ داری سنبھالنے اور ادا کرنے کے حوالے سے الجھے ہوئے تھے  دلاسہ دیا تھا۔  حضرت خدیجہ ؓ نے  اس موقع پر جو  الفاظ استعمال کئے تھے  وہ  تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں آج تک محفوظ ہیں۔  انہوں نے جو کچھ کہا تھا  اس کا مفہوم کچھ  اس طرح ہے کہ ’’آپ ایسے  انسان ہیں جو  ناداروں کی  مدد کرتے ہیں،جو مظلوموں کی  داد رسی کرتے ہیں، جو  محتاجوں کی  حاجت روائی کرتے ہیں، جو  دوسروں کے  دکھ درد  کو  اپنا  دکھ  درد سمجھتے ہیں۔ ایسے انسان کو    رب العالمین کبھی ضائع نہیں کرسکتا۔  ایسا انسان اپنے مشن میں کبھی ناکام نہیں ہوسکتا‘‘۔
 
اس گھر کا دوسرا نام مقام رسول  یا دار رسول کے  نام سے اسلام کے  پیرو کاروں میں مشہور ہے۔ یہ گھر  وادی ابراہیم ؑ کے  وسط میں واقع ہے۔ اسکا محل وقوع مسعی کے بعد مسجد الحرام کے مشرق میں ہے۔ تقریباً نصف کلو میٹر  دور ہے۔  یہی وہ گھر ہے  جہاں ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ ،  رسول اکرم کے ہمراہ اپنی وفات تک سکونت پذیر رہیں۔ یہی وہ  مکان ہے جہاں حضرت قاسم ، حضرت عبداللہ، حضرت زینب، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم،   رسول اللہ کی اولاد پیدا ہوئی۔ 
 
نبی کریم نے اس گھر میں28برس قیام کیا۔ آپ نے اسی گھر سے  مدینہ منورہ ہجرت کی تھی۔  ہجرت کی رات اس مکان میں پیغمبر اعظم و آخر کے قیام کی آخری رات تھی۔ ہجرت اللہ کے حکم پر کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ نے نبی کریم  کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے زبردست سازش رچی تھی اور  اسے نافذ کرنے کے لئے رسول اللہ کے گھر کا گھیراؤ بھی کرلیا تھا۔   اسی حوالے سے بعض لوگ  اسے دارالہجرہ کے  نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
 
یہی وہ گھر تھا جس میں ہجرت کی شب کا  تقویم ساز واقعہ پیش آیا۔ شمشیر بدست کفار نے اس گھر کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ رات کی تاریکی میں  رسول اللہ  اسی گھر سے نکل کر اپنے پیارے ساتھی ابو بکر صدیقؓ کے گھر پہنچے تھے  اور  وہاں سے  سفر ہجرت پر  روانہ ہوئے تھے۔
 
یہی وہ گھر ہے جہاں رسول اللہ  کی سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراء  ؓپیدا  ہوئی تھیں۔ مسجد الحرام کے بعد یہ  مکہ مکرمہ کا سب سے افضل اور محترم گھر ہے۔ یہ بات  المحب الطبری نے اتحاف الوری میں تحریر کی ہے۔ شاید یہ  بات اس لئے کہی گئی ہے کیونکہ نبی کریم   حضرت خدیجہ ؓ  کے ساتھ شادی کے بعد سے ہجرت کے تاریخ ساز  واقعہ تک اسی گھر میں قیام پذیر رہے۔ شاید یہ  بات اس لئے بھی کہی گئی ہے کیونکہ اس گھر میں کثرت سے  وحی نازل ہوئی۔ غالباً   یہ بات اس لئے بھی کہی جاتی ہے کیونکہ  اسی میں رسول اللہ کی نرینہ اولاد  پیدا ہوئی اور اسی میں  اس اولاد نے بھی جنم  لیا جس کی  بدولت  رسول اللہ  کی نسل آج تک چل رہی ہے۔
 
 تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ جب نبی کریم ہجرت کرکے  مدینہ منورہ چلے گئے  تو عقیل بن ابی طالب نے جو  آپ کے چچازاد  بھائی تھے  اس گھر پر قبضہ کرلیا تھا۔ آگے چل کر امیر معاویہ بن ابی سفیان نے عقیل بن ابی طالب سے یہ گھر مہنگے  داموں خرید لیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت معاویہ خلیفہ تھے۔  انہوں نے اس گھر کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔
 
 تاریخی واقعات نویس بتاتے ہیں کہ  دار خدیجہ یا مقام رسول کی حدود متعین ہے۔ کبھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ معاویہ بن ابی سفیان نے اس میں ایک اور  دروازہ کھولا تھا جس کا رخ ابو سفیان کے گھر کی طرف تھا۔ یہ  دروازہ اب تک قائم ہے۔
 
 یہ وہ گھر ہے جسکی بابت رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن کہا تھا کہ ’’ جو شخص ابوسفیا ن کے گھر میں پناہ لے گا  وہ محفوظ ہوگا‘‘۔
 
اب اس مکان کی جگہ ایک  مدرسہ قائم کردیا گیا ہے جو ’’مدرستہ تحفیظ القرآن الکریم‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ (الازرقی جلد 2صفحہ 599، الزہور المقطفہ لتقی الدین الفاسی صفحہ 99، الجامع اللطیف لابن ظہیرۃ صفحہ 328 ، صور من  تراث مکہ المکرمہ فی القرن الرابع عشر الہجری لعبداللہ محمد ابکر صفحہ 40)۔
 

شیئر: