زندگی اور صحت کا کوئی بھروسہ نہیں ،نہ جانے آگے کیا حالات آئیں لہٰذا حج فرض ہو تے ہی پہلی فرصت میں ادا کرلیا جائے
* * * عابدہ رحمانی۔امریکہ* * *
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، انالحمد وان نعمت لک والملک لا شریک لک…لبیک اللہم لبیک۔ ’’حا ضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں!تیرا کوئی شریک نہیں ،تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں ،نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں…حاضر ہوں میرے اللہ! میں حاضر ہوں۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اختتام کے بعد ہی فریضہ حج کی ادائیگی کا اہتمام شروع ہونے لگتا ہے اور حاجی حضرات اپنی روانگی کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ ارادہ تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو ایک حج سیکریٹریٹ اور وزارت ہے جو حج کے تمام معاملات کو نمٹا تا ہے۔سال ڈیڑھ سال قبل ہی حج کیلئے درخواستیں موصول ہوتی ہیں، قرعہ اندازی ہونے کے بعد حج کا پورا پروگرام اور جدول حاجیوں کو موصول ہوتا ہے۔
اب پاکستان سے بہت سے پرائیویٹ گروپ میں بھی حج کیا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ یعنی کینیڈا اور امریکہ کے عازمین حج کا طریقۂ کار نجی حج گروپوں کے ذریعہ تشکیل پاتا ہے۔ کئی نجی کاروباری گروپ عازمین حج اور عمرہ کو سہولیات مہیا کر رہے ہیں، اسمیں سفر کے تمام ذرائع ، رہائش اور طعام شامل ہے۔2009 میں جب میں نے اپنا دوسرا سفر حج کیا تو اسی طرح کے ایک حج گروپ کے ہمراہ ہم نے سفر کیا۔ہم کینیڈا سے7 افراد گئے تھے، باقی تقریباً ڈیڑھ سو افراد کا قافلہ لندن ہیتھ رو سے شامل ہوا۔ کافی منظم طریقہ کار تھا اور بہت آرام اور اطمینان سے تمام مناسک ادا ہوئے۔ حج اسلام کا پانحواں رکن ہے9ھ میں حج فرض ہوا۔اور اسی سال رسول اللہ نے اپنا پہلا حج کیا۔ حج اسلام کے5ارکان میں پانچواں رکن گنا جاتا ہے۔ پوری عمر میں صرف ایک بار حج فرض ہے اسکے علاوہ نفل ہے۔حج کی فرضیت پر ارشاد باری تعالیٰ ہے’ ’’ بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا گیا وہ گھر جو مکہ میں ہے وہ برکت والا اور دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، مقام ابراھیم کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اسمیں چلا جاتا ہے وہ امن پاتا ہے اور اللہ کیلئے لوگوں پر اس کا حج فرض ہے ان پر جو وہاں پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں جو منکر ہو تو اللہ کو بھی کسی کی کچھ پرواہ نہیں۔‘‘(آلِ عمران79)۔
تفسیر ابنِ عباس میں آیت بالا کی تفسیر اس طرح ہے: ’’سب سے اوّل مسجد جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے روئے زمین پر بنائی گئی ہے وہ یہی ہے جو مکہ میں ہے یعنی کعبۃ اللہ ، وہ مبارک گھر ہے یعنی اسمیں مغفرت و رحمت ہے اور سارے جہاں کیلئے سیدھی راہ ہدایت کی بنیاد ہے ۔سب رسولوں ،ولیوں ،مسلمانوں کی قبلہ گاہ ہے ۔ حرمین شریفین کا سفر حج ایک راسخ العقیدہ مسلمان کیلئے انتہائی مسرت اور سعادت کا باعث ہے۔اب تو کافی بڑی تعداد میں نوجوان لوگ حج کی ادائیگی کیلئے جاتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ لوگ فریضہ حج کے لئے پائی پائی جوڑ کر اکٹھا کرتے تھے اور سفر حج کے لئے روانہ ہوتے۔ حضور نے ارشاد فرمایا: ’’جو کوئی حج کیلئے گھر سے نکلا اور راہ میں موت آجائے اُس کیلئے قیامت تک ایک حج ایک عمرہ ہر سال لکھا جاتا ہے اور جو کوئی مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں انتقال کر جائے وہ قیامت کے دین حساب و کتاب سے پاک ہے۔‘‘ (کیمائے سعادت)۔ رسول پاککے فرمانِ عالی ہیں: « جس شخص پر حج فرض تھا اور باوجود استطاعت کے اس نے حج نہ کیا اور مر گیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ یہودی مرے یا نصرانی مرے(ترمذی )۔
« ایسا حا جی جس نے دورانِ حج اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اپنے کو بچائے رکھا وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ جیسا ابھی شکمِ ما در سے پیدا ہواہے(بخاری و مسلم) ۔ حج ایک اہم عبادت ہے جیسے ہی آدمی صاحب استطاعت ہوا اسی وقت اس پر حج فرض ہو جاتا ہے، اگر وہ حج کو نہیں جاتا تو گنہگار ہوتا ہے۔ جب حج کرنے کے لائق ہو جائے تو حج فرض ہوجاتا ہے۔ ہماریہاں پہلے یہ تصور بہت راسخ تھا کہ سارے بچوں کی شادی ہو جائے،ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں تو پھر چلیں حج کرنے۔ زندگی اور صحت کا کوئی بھروسہ نہیں ،نہ جانے آگے کیا حالات آئیں۔ کمال و زوال زندگی کے ساتھ لگا رہتا لہٰذا حج فرض ہو تے ہی پہلے حج کرلیا جائے۔ انڈونیشیا اور ملائشیا کے مسلما ن زیادہ تر شادی سے پہلے حج کر لیتے ہیں ورنہ نوجوان جوڑے حج کیلئے جاتے ہیں۔اب تو ہمارے بر صغیر کے باشندوں میں بھی نوجوانی یا جوانی میں حج کرنیکا رحجان بڑھ گیا ہے۔
اب تو ادائیگی ٔ حج میں آرام و آسائش کا عنصر کافی بڑھ گیا ہے۔ پچھلے حج میں ہمارے منیٰ میں قیام کے دوران انتہائی پُر آسائش انتظامات تھے۔ آرام دہ صاف ستھرے بستر، کھانے کیلئے ایک بوفے ٹینٹ تھا جہاں انواع و اقسام کی خوراک میسر تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک بہت بڑی ضیافت میں آئے ہیں۔ حج کے سفر میں مدینہ منورہ و روضۂ اقدس کی حاضری: روضہ مبارککی زیارت کرنا اگرچہ حج کے ارکان میں نہیں لیکن احترام ِنبی کا تقاضا ہے کہ روضہ مبارک پر ضرور حاضری دی جائے۔رسول اللہ کی بدولت ہمیں اسلام کی دولت ملی ، حج کی فرضیت آپ نے بتائی اور آپ ہی کے مناسک کی پیروی کرتے ہوئے ہم ادائیگی ٔ حج کرتے ہیں۔ حضور کے روضہ اقدس کی زیارت کر نا دین و دنیا میں سر خروئی کا موجب ہے۔ اسکی نسبت خود رسول کا ارشاد ہے : « مَنْ وَّ جَدَ سَعَتہََ وَّ لَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانِیْ۔ ’’جس کو مدینہ تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری زیارت کو نہ آئے (یعنی صرف حج کر کے چلا جائے ) اس نے میرے ساتھ بہت بے مروَّتی کی۔‘‘ « مَنْ زَرا قَبْرِیْ وَ جَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتی۔
« جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت لازمی ہو گئی ۔ « جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی ایسا ہی ہے جیسا کے اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ آجکل حج کی منصوبہ بندی کرنیوالے حاجیوں کی آمد کے لحاظ سے مدینہ روانگی کا تعین کرتے ہیں۔جو حاجی پہلے پہنچتے ہیں وہ مدینہ منورہ پہلے جاتے ہیں اور بعد میں آنیوالے حج کے بعد ،اس طرح زائرین یا حاجیوں کا ہجوم قابو میں آجاتا ہے۔ ہر سال30,25 لاکھ حجاج کو سنبھالنا کافی مشکل اور اہم مرحلہ ہے۔ آجکل حج اور عمرہ کرانے والے گروپ اور ادارے حجاج کی بھر پور تربیت کرتے ہیں۔ کافی ساری کلاسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ انکو ماحول ، بود و باش اور مسائل سے آگاہی دی جاتی ہے۔ مناسک حج و عمرہ کے متعلق بھی کافی معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ جب ہم نے2009 ء میں حج کیا تو ہمارے شیوخ نے آن لائن اور ویب نار کے ذریعے تربیتی کلاسیں کروائی تھیں۔ پاکستان کے ان پڑھ عوام کی تربیت بے حد ضروری ہے۔ ان میں جوش و جذبہ تو شدید ہوتا ہے لیکن تربیتی فقدان کی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی تمام متوقع حجاج کرام کیلئے آسانیاں فراہم کرے اور انکی تمام تگ و دو کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،آمین۔ حج کے متعلق یہ ایک کہانی پڑھی،مجھے بے حد پسند آئی تھی۔
ایک بہت ہی گنہگار شخص حج ادا کرنے چلا گیا۔ وہاں کعبہ کا غلاف پکڑ کر بولا:الٰہی! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں 2 حرف ہیں، ‘‘ح‘‘سے تیرا حکم اور ‘‘ج‘‘سے میرے جرم مراد ہیں۔ تو اپنے حکم سے میرے جرم معاف فرما دے۔ آواز آئی!اے میرے بندے! تُونے کتنی عمدہ مناجات کی پھر کہو! وہ دوبارہ نئے انداز سے یوں پکارتا ہے: ’’اے میرے بخشن ہار! اے غفار! تیری مغفرت کا دریا گنہگاروں کی مغفرت و بخشش کیلئے پُرجوش ہے اور تیری رحمت کا خزانہ ہر سوالی کیلئے کھلا ہے،الٰہی! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور حج 2حرف پر مشتمل ہے: ’’ ح‘‘اور ‘‘ج‘‘۔ ’’ ح‘‘ سے میری حاجت اور ’’ ج’’ سے تیرا جْود و کرم ہے۔ تُواپنے جْود و کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری فرما دے۔‘‘ آواز آئی! اے جوان مرد !تُو نے کیا خوب حمد کی، پھر کہو۔ وہ پھر عرض کرنے لگا اے خالق کائنات!تیری ذات ہر عیب و نقص اور کمزوری سے پاک ہے، تُو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے ،میرے رب! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں۔
حج کے2 حرف ہیں: ’’ح‘‘ اور ‘‘ج‘‘ ۔ ’’ ح’’ سے اگر میری حلاوتِ ایمانی اور ’’ ج’’ سے تیرا جلال مراد ہے تو تُو اپنے جلال کی برکت سے اس ناتواں ضعیف بندے کے ایمان کی حلاوت کو شیطان سے محفوظ رکھنا۔‘‘ آواز آئی! اے میرے مخلص ترین عاشق و صادق بندے !تُو نے میرے حکم ،میرے جودو کرم اور میرے جلال کے توسل سے جو کچھ طلب کیا ہے تجھے عطا فرمایا۔ہمارا تو کام ہی مانگنے والے کا دامن بھر دینا ہے مگر بات تو یہ ہے کوئی مانگے تو سہی۔ کسی کو مانگنے کا سلیقہ تو آتا ہو۔