میاں نوازشریف عوامی مینڈیٹ سے برسرا قتدار آئے تھے تو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا وعدہ تھا مگر انہوں نے الٹ ہی کیا
* * * *سید شکیل احمد* * * *
ایک ایسا بھی دور تھا کہ عموما ً بعض افراد کا تکیہ کلا م ہو ا کرتا تھا ، اور بعض الفاظ کسی کی چڑ بن جایا کرتے تھے۔ایک بات ہے کہ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر خوب قبضہ جمایا ہو ا ہے ، میا ںنو ازشریف اور ان کے خاند ان کے بارے میں وہ اودھم مچا رکھی ہے کہ اللہ کی پنا ہ۔ آج کل یہ جملہ چل رہا ہے کہ مجھے کیو ں نکالا ، سینے کا بار بار زور لگا کر میا ں صاحب نے جس شدت سے یہ سوال کیا اس نے حیر ان کر دیا کہ ان کا مخاطب کو ن ہے یا کس سے یہ پو چھا جا رہا ہے۔ جب سے میا ں صاحب کے دن مصائب کے بھنور سے چکر ائے ہیں اسی روز سے اس بارے میں جہا ں تحریک انصاف ، پی پی ، جماعت اسلا می وغیر ہ نے ڈگڈگی بجا نا شروع کر دی ہے تب ہی سے کوئی نا دیدہ مخالفین کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کیخلا ف طبلہ بجایاجا رہا ہے۔اس سلسلے میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ ممتاز قادری عاشق رسول کی پھانسی کی ہائے پڑی ہے۔ بات تو درست ہے ۔
نو از شریف حکومت کے بہت سارے فیصلے بوڑم اور بھو نڈے رہے ہیں ۔ اس سے سابق دور میں ایسا ہی فیصلہ سو د کے بارے میں شریعت کو رٹ کا فیصلہ تھاحالا نکہ اللہ تعالیٰ نے سود کے کا روبار کر نے والو ں سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اللہ سے جنگ کیلئے تیا ر ہو جا ئیں۔ اسلا می جمہو ریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 2کے تحت پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام اور قرار داد مقاصد مستقل احکا م کا حصہ ہو گی ، جس کا واضح مطلب ہے کہ پا کستان میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جا ئیگی جو دین اسلا م سے متصادم ہو ۔شرعیہ ایکٹ 1991سیکشن 3نے اسلا م کا اعادہ کیا ہے کہ اس ملک کے قوانین اور مقررہ ایکٹ کے سیکشن 8نے مزید وضاحت کردی ہے ، جس کے بعد یہ ریا ستی ذمہ داری ہو جا تی ہے کہ وہ ایسے اقداما ت کو یقینی بنائیگی جس کے تحت پاکستان کے اقتصادی نظام کو اسلا می اقتصادی مقاصد کے مطا بق بنایا جا ئے اور اسلا می اصولو ں کو ترجیح دی جا ئے چنا نچہ وفاقی شریعت کو رٹ نے اس سلسلے میں ایک مقدمے میں فیصلہ دیا کہ رباء حرام ہے لہٰذا بینکو ں اور دیگر اداروں سے اس کا خاتمہ کر دیا جا ئے ۔
میا ں نو از شریف کی حکومت نے وفاقی شریعت کو رٹ کے اس فیصلے کے خلا ف سپر یم کو رٹ کے شرعی اپیلٹ بنچ میںاپیل دائر کر دی ،1999ء میں وفاقی شرعی اپیلٹ بنچ جسٹس خلیل الرحمان، جسٹس منیر شیخ ، جسٹس وجیہ الدین احمد اور مولا نا مفتی جسٹس محمد تقی عثما نی پر مشتمل تھا۔ عدالت کے فیصلے کے باوجو د نو از شریف کی حکومت نے اعلیٰ عدالت سے حکم امتنا عی حاصل کیا ۔اس وقت بھی عوام حیران پر یشان تھے کہ ایک ایسی جما عت جو پاکستان کی بانی جما عت ہونے کی دعوے دار ہے اور پا کستان کو اس جماعت نے اسلامی نظرئیے کی بنیا د پر حاصل کیا مگر وہ شرعی قوانین کے نفاذ سے مفر ہے اور عدالتوں سے حکم امتنا عی حاصل کر نے میں مگن رہتی ہے اسی لمحے عوام نے محسو س کیا تھا کہ سود کے خاتمے کے فیصلے کیخلا ف حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اس پر پھٹکا ر پڑنے کے امکا ن ہیں چنا نچہ اس وقت پر ویز مشرف نے آئین سے غداری کر تے ہوئے نو از شریف حکومت کا تختہ کر دیا حالا نکہ میا ں نو از شریف گزشتہ دور میں پا کستان کی تاریخی بھاری مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں آئے تھے جن کیلئے آئین میں ترمیم کر نے یا قانو ن سازی میں کوئی رکا وٹ بھی حائل نہ تھی۔ ایسا بھا ری مینڈیٹ 1946ء کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو حاصل نہیں ہو اتھا جبکہ اس وقت تحریک پاکستان عروج پر تھی ۔
ان انتخابات کو مسلم لیگ اور کا نگر یس کیلئے بھاری آزمائش و ریفرنڈم سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔جب میا ں نو از شریف بھاری مینڈیٹ لے کر بر سراقتدا رآئے تھے تو اس وقت بھی ان کا قوم سے وعدہ تھا کہ وہ پا کستان کو ایک اسلا می ریا ست بنائیں گے مگر اقتدار میں انھو ں نے الٹ ہی کیا ۔ عالمی شہر ت یا فتہ مسلم اسکا لر ڈاکٹر اسرار احمد نے اس زما نے میں اسلا می نظام کی مہم چلا ئی تھی اور ملک کو سود سے پاک کر نے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمد نے میاں نو از شریف کو خطو ط لکھے تھے جس کے جو اب میں ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پختہ ارادہ رکھتے ہیںکہ پاکستان کو رباء سے نجات دلا دیں علا وہ ازیں میا ںنو از شریف کے والد میا ںمحمد شریف ، شہباز شریف اور خود میا ں نو از شریف نے اجتما عی طور پر ڈاکٹر اسر ار احمد سے ملا قات کی اور اس امر کی یقین دہانی کر ائی کے سود پر پابندی سمیت دیگر اسلامی قوانین رائج کر دیے جا ئیں گے لیکن کا فی عرصہ اس وعد ے کا بیت گیا اور کوئی قدم نہیں بڑھا یا گیا تو اسکے بعد ڈاکٹراسرار احمد مر حوم نے اخبارات کے ذریعے بھی یا ددہانی کرائی اور ساتھ ہی خط بھی لکھا ، جس کے بعد میا ں محمد شریف اپنے صاحبزادو ں ، نو از شر یف ، شہباز شریف اور عباس شریف جو سیا ست میں عمل دخل نہیں رکھتے تھے وہ بھیڈاکٹر صاحب مر حوم کے سے ملا قات کیلئے دوسری مر تبہ آئے اور ایک بار پھر یقین دہانی کر ائی ، اس کے باوجو د نو از حکومت نے اس وقت بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
نو از شریف حکومت کا ممتاز قادری کی پھانسی میں عجلت دکھا نا ، سود کے بارے میں شریعت کو رٹ کے فیصلے کیخلا ف اپیل کر نا ایسے کئی پھوڑپن کے فیصلے ہیں، اس کے بعد جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کو کیو ںنکالا تو یہ سوال بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ عوام نے ان کو کس لئے مینڈ یٹ دیا تھا اور انھو ں نے کس کے مینڈٹ کیلئے کا م کیا ۔اقتدا ر کی چاہت میں اللہ تعالیٰ سے اعراض کوئی اعز از نہیں بخشا کر تا بلکہ اس سے ذلت اور رسوائی ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی توبہ کے دروازے بند نہیں کیے ،ہر وقت اس پا ک ذات سے رجو ع کیا جا سکتا ہے۔اس طرح بلبلا نے سے کا م نہیں چلا کرتا کہ مجھ کو کیو ں نکا لا ، مجھ کو کیو ں نکا لا ، مجھ کو کیو ں نکا لا ؟ ایسا سوال تو ان کو اپنے ضمیر سے کر نا چاہیے۔ عوام تو اس امر کے جو اب دہ نہیں ، وہ تو خود جاننا چاہتے ہیں کہ ان کو کیو ں نکالا۔
وہ تو یہ جا نتے ہیں کہ70 سال سے یہی ایک کھیل ہو رہا ہے کہ سویلین وزیر اعظم کو چلتا کر دیا جا تا ہے ۔چونکہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ مشرف کے آمر انہ دور کی وجہ سے عوام جا گ گئے ہیں اور وہ اب خود آمریت کے سامنے دیو ار بن گئے ہیں ورنہ مشرف تک تو سیدھا سادھا سا آزمودہ فارمولا تھا کہ آئین کو جنرل ضیا ء الحق کے بقول ردی کا ٹکڑا جا نو اور اس سے کھلواڑ کرکے آگے بڑھ جا ؤ ۔ میا ں صاحب کو اپنے پہلے دور کی ساز ش کو یا د رکھنا چاہیے تھا جس کے بارے میں امریکہ میںپاکستان کی سابق سفیر بیگم عابدہ حسین نے اپنی کتا ب میںبڑے واضح انداز میں ذکر کیا ہے ۔ میاں صاحب وہ کتا ب پڑھ لیں تو ان کو عوام سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی کہ’’ ان کو کیو ں نکا لا ؟‘‘۔