Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025

مسلم لیگ (ن) میں مزید استحکام

مسلم لیگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسڑیٹ پاور کی واحد جما عت تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ اس کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے
* * * *سید شکیل احمد* * * *
تاریخ یہ کہتی ہے کہ کبھی کوئی بھی شخصیت ڈنڈے کے زور پر عوام کے دلو ں میں گھر نہ کر سکی ہے بلکہ وہ عوامی غیض اور غضب کا نشانہ رہی ہے، یہ صورتحال پاکستان کی بھی ہے۔ہند وستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہا ں مسلمانو ں کی قیادت ہمیشہ دینی شخصیات کے ہا تھ میں ہی رہی ہے ، ہندوستان کے مسلما نو ں کبھی کسی جنٹلمین کو اپنا رہنما تسلیم نہیں کیا حتیٰ کہ مو لانا محمد علی جوہر اور مولا نا شوکت علی جو آکسفورڈ کے تعلیم یا فتہ تھے وہ بھی اس وقت مسلمانو ں کی قیا دت کے اہل قرار پائے جب انھو ں نے اسلا می بود باش کو اپنا یا اورانگریزی سوٹ کی بجائے شیروانی زیب تن کی، ترکی ٹوپی پہنی اور مسٹر کی جگہ مولا نا کہلو ائے۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح اس خطے کی واحد شخصیت تھے جو دینی تعلیم کے سند یا فتہ نہیں تھے اور ان کی بود با ش بھی علماء کی طرح نہیں تھی ، اس کے باوجود وہ ہند وستان کے مسلمانو ں کے بے بدل رہنما قرا ر پائے گویا جس کو پیا چاہیے وہی سہاگن کہلائے ۔ پا کستان کے موجو دہ حالات پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوجا تا ہے کہ اس ملک میں درجنو ں بھر سیا سی جما عتیں ہیں۔
اسی حساب سے لیڈر بھر ے پڑ ے ہیں لیکن اصل لیڈر وہی ہیں جو عوام کے دل میں بستے ہیں یہ بات اب تک یا تو عمر ان خان نے ثابت کی ہے یا اب نو از شریف نے اسلا م آباد سے لاہو ر منتقلی کے وقت ثابت کر دکھائی ہے مگر نو از شریف کا معاملہ عمر ان خان نیا زی سے کا فی مختلف نو عیت کا ہے۔نو از شریف 3 مر تبہ پاکستان کے عہدہ ٔجلیلہ پر فائز ہوئے اور ہر مرتبہ ان سے عوامی مینڈیٹ لے لیا گیا اور ہر مرتبہ انھو ں نے بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر ثابت کیا کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ۔ عدالتی فیصلے کے بعد نو از شریف نے جو تاثر دیا تھا اس میں انھو ں نے کہا تھا کہ انھو ں نے تو عدالت کا فیصلہ مان لیا مگر عوام نے نہیں مانا۔گویاعجیب بات لگ رہی تھی مگر اسلا م آباد سے لاہو ر روانگی کے دوران ان کے ساتھ ہجو م کا جو والہانہ جو ش و جذبہ دیکھنے میں آیا تو بات سمجھ میںآئی کہ کسی بھی طور طریقے سے عوامی لیڈر کو عوام کے دلو ں سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا نے جو رپو رٹنگ کی ہے اس کے مطابق جگہ جگہ لو گ سابق وزیر اعظم کی گاڑی کو چوم رہے تھے ۔ یہ نیا اند از پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اچھو تی با ت یہ بھی سامنے آئی کہ بالکل نئے طرز کا نعرہ بھی عوامی سطح پر منظر عام پر آیا اور اس پر حیر ت بھی ہوئی کہ جس جرم میں نو از شریف کو نااہل قر ار دیا گیا ہے وہ ان کے لیے نعرہ بن کر عزت افزائی کر رہا ہے کہ نو از شریف کے استقبال میں جہا ں دوسرے نعرے لگ رہے تھے یہ نعرہ بھی لگ رہا تھا کہ صادق اور امین آگیا ۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ایسا محسو س ہو تا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس نعرے کو مقبولیت سے ہمکنا ر کر ے گی ۔ نو از شریف کی ریلی کے بارے میں رائے بٹی ہو ئی ہے ۔میڈیا کی سطح پر تو نما یا ں طور پر تقسیم ہے جبکہ سیاسی شخصیات کے تبصرے جانبداری اور تعصب سے عاری نہیں ۔
الیکٹرانک میڈیا درست منظر کشی نہیں کر رہا حالانکہ الیکٹرانک میڈیا بنیادی طورپرعوام کا اثاثہ ہو تے ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچ سے اعراض نہ کریں چنا نچہ ہو یہ رہا ہے کہ جو مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں وہ ریلی کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں اور جو مخالف ہیں وہ اس کو نا کام ترین قرا ر دے رہے ہیں لیکن ا ن کو یہ علم رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام شعور سے بہر ہ مند ہیں وہ کسی کے پروپیگنڈے کا شکا ر نہیں ہو سکتے جیسا کہ وہ دھر نے اور صادق امین کے معاملے میں اپنا مینڈیٹ رکھتے ہیں کسی جھا نسے میں نہیںرہے۔ اخباری دنیا کا بھی رویہ کچھ ایسا ہی ہے مگر پھر بھی بہتر ہے بہر حال عوامی رائے عامہ کو گمر اہ کرنا بڑا غیر اخلا قی فعل ہے جس سے اجتنا ب کی ضرورت ہے ۔ جہا ں تک سیا سی شخصیات کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی سیاست کے ہیر پھیر میں کسی سیا سی فریق یا جماعت کی مقبولیت کو پی تو نہیں سکتے ۔اپنے سیا سی مفادات کے مطا بق ہی تبصرے کر یں گے۔
ان میں سب سے انو کھا تبصر ہ لا ل حویلی کے لطیف باز نے کیا ۔ سیاست میںلطیفے بازی کو بھی بہت پزیرا ئی ملتی ہے عوام اس سے خوب لطف اندوز بھی ہو تے ہیں۔ پاکستان میں سیا سی لطیفے بازی اور سیا سی پیشگوئیوںمیں مو جو دہ پیر پگا را کے والد محترم مردان شاہ پگار ا کو کما ل حاصل تھا کہ وہ بڑے لطیف پیر ا میں بڑی سے بڑی بات کہہ جا یا کر تے تھے مثلا ًجب محمد خان جو نیجو نے از سرنو مسلم لیگ کی بنیا د رکھی تو اس مو قع پر پیر پگارا نے تبصرہ کر تے ہوئے کہا کہ وہ تو جی ایچ کیو کے آدمی ہیں گویا باریک انداز میں انھو ں نے بتادیا کہ جونیجو کی مسلم لیگ تو جنرل ضیاء الحق سے ہٹ کرہے۔ اس طرح ایک مرتبہ سینیٹ کے اجلا س میں پیر صاحب مو لا نا کوثر نیا زی سے لوگو ں سے ہٹ کر بات کر رہے تھے تو ان سے اخباری نما ئندو ں نے استفسار کیا کہ مولا نا کو ثرنیازی کیا کہہ رہے تھے تو پیر صاحب پگار ا نے بڑی بے اعتنا ئی سے کہا کہ ارے مولا نا نے کیا کہنا تھا مولوی تو سب کا آدمی ہو تا ہے ہما را بھی ہے ۔اب پیر صاحب کی جانشینی شیخ رشید نے سنبھالنے کی سعی کر رکھی ہے۔ ان کے لطائف تو ہوتے ہیں مگر گہر ائی نہیں ہوتی۔ نو از شریف کی ریلی کے بارے میں ان کا تبصرہ ہے کہ اتنے افراد تو وہ اپنے جلسے میں اکھٹے کر لیتے ہیں گویا جہاں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ناکام ریلی ہے وہا ںوہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیںکہ ان کی حیثیت بھی اسی ریلی کی طرح ہے ۔ بہر حا ل یہ کوئی بڑ ا یشو نہیں کہ ریلی کا میا ب ہے یا نا کا م ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پا کستان میں یہ رواج ہے کہ کسی سول وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جا تی چاہے وہ کتنے ہی بھاری منڈیٹ کے ساتھ منتخب ہو کر آئے ۔دیکھنا یہ ہے کہ عمر ان خان جنہو ں نے ساڑھے4 سال تک نو از شریف کو اقتدار سے الگ کر نے کی مشقت میںلگا ئے ان کو کیا حاصل ہو ا۔ بظاہر تو یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اقتدار کی کر سی پر چہر ہ ہی بدلا ہے ۔ باقی سب پر اناہی پر انا ہے ، اس کی بہ نسبت نو از شریف نے ایک کامیاب سیاست دان کی طرح اپنی سیا سی مقبولیت کو نہ صرف بٹہ لگا نے سے بچایا بلکہ سیا سی مقبولیت چاہیے وہ اند رون ملک ہے یا بیر ون ملک اس میں سواد پایا ہے ، خود کو ایک کا میا ب سیا ست دان ثابت کر دیا کیو نکہ مسلم لیگ کی تاریخ میںپہلی مر تبہ اقتدار کے ڈول جا نے سے مسلم لیگ بکھر ی نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو ئی ہے اور اپنی قیا دت کے ساتھ پورے طور پر کھڑی نظر آرہی ہے۔کسی کو پا رٹی کے اندر کسی خاص پر یشانی کا سامنا بھی نہیں۔ جہا ں تک چوہدری نثارکا تعلق ہے تو وہ مسلم لیگ کے چونچال رہنما ہیں کوئی فکر کی بات نہیں ہیں ۔ مسلم لیگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسڑیٹ پاور کی واحد جما عت تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ اس کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے چنا نچہ اگلے انتخاب میں ان 2 بڑی سیا سی قوتوں کا انتخابی ٹکر ائو بڑا دلچسپ ہو گا ۔

شیئر: