مظلوم فلسطینی قوم کی دکھ بھری یادوں کا ایک پس منظر فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ بار بار کی جنگیں ہیں جن کے نتیجے میں ان گنت فلسطینی خاندان یا تو مکمل طور پر شہید ہوگئے یا ان کا کوئی ایک آدھ فرد ہی زندہ بچ پایا ہے۔ ایسے ہی ایک ستم رسیدہ فلسطینی خاندان کی جواں سال لڑکی عبیر ابو جبیر بھی شامل ہیں جس کے والدین اور بہن بھائیوں سمیت 19 افراد صہیونی فوج کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوچکے ہیں اور وہ اپنے خاندان کی اکلوتی اولاد بچی ہے۔ عبیر ابوجبر رواں سال خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان کی طرف سے حج کی خصوصی دعوت پر فریضہ عظیم کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس آئیں جہاں انہوں نے منیٰ میں قیام کیا۔ منیٰ ہی میں انہوں نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات چیت میں اپنی بپتا سنائی۔ عبیر ابو جبر نے بتایا کہ کس طرح اسرائیلی فوج نے ایک فضائی حملے میں اس کے پورے کے پورے خاندان کو شہید کرڈالا تھا۔ آنکھوں سے آنسوو¿ں کی شکل میں ٹپکتی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے عبیر کی بار بار ہچکی بندھ جاتی۔ اس نے بتایا کہ "یہ 29 جولائی 2014ءکو عیدالفطر کی رات تھی اور غزہ کی پٹی میں مختلف مقامات پر اسرائیلی فوج وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ ہمارا پورا خاندان ایک سے دوسرے مکان میں منتقل ہوتا۔ میں ایک مکان میں میں تھی اور ساتھ والے مکان میں میرے والد، والدہ، تین تین بھائی، بہن، بھاوج، ان کے چار بچے، کزن، چچا اور ان کی اولاد سمیت کئی افراد رکے ہوئے تھے۔ اس دوران اسرائیلی کے ایک بمبار طیارے نے ساتھ والے مکان پر بم گرایا۔ بم گرتے ہی مکان ملبے کا ڈھیر بن گیا اوراس کا پورا خاندان ملبے تلے دب گیا۔ قریبا یہ آدھی رات کا وقت تھا۔ کوئی مدد کو پہنچنے والا نہ تھا۔ جب کہ ملبے تلے دبے افراد کی مدد کے لیے مسلسل آہ وبکا سنائی دے رہی تھی۔ اگلی صبح تک کوئی انہیں بچانے نہ آسکا کیونکہ ہر طرف بمباری ہو رہی تھی اور کئی دوسرے مکان بھی بمباری کے باعث زمین بوس ہوچکے تھے۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ وہ سب شہید ہوچکے تھے۔ دو ہفتے بعد ملبے تلےسے اس کی ایک بہن کو شدید زخمی حالت میں نکالا گیا جو اپنی یاداشت کھو چکی تھی“۔